جواب:
حج کی تین اقسام ہیں:
حجِ قران اس طریقہ حج کو کہتے ہیں جس میں احرام باندھتے ہوئے حج اور عمرہ دونوں کی نیت کر لی جائے کہ حج اور عمرہ ایک ہی احرام میں ادا کیے جائیں گے۔ عازم حج مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کرتا ہے پھر اسی احرام میں اسے حج ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس دوران احرام میلا یا ناپاک ہونے کی صورت میں تبدیل تو ہو سکتا ہے مگر اس کی جملہ پابندیاں برقرار رہیں گی۔ حج اور عمرہ جمع کر کے ایک ہی احرام میں ادا کرنے کے سبب اسے حجِ قران کہتے ہیں اور اس کی ادائیگی کرنے والا حاجی قارن کہلاتا ہے۔
وہ طریقہ حج جس میں حج اور عمرہ الگ الگ ادا کیا جاتا ہے اور اس صورت میں عمرہ ادا کرنے کے بعد عازمِ حج حلق و قصر کراکر احرام کھول دے گا۔ اس طرح اس پر آٹھ ذوالحجہ یعنی حج کے ارادے سے احرام باندھنے تک احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ آٹھ ذوالحجہ سے حج کے لئے دوسرا احرام باندھنا پڑتا ہے۔ یہ حج صرف میقات کے باہر سے آنے والے ہی ادا کر سکتے ہیں۔ حجِ تمتع کرنے والا حاجی مُتَمَتِّع کہلاتا ہے۔
حجِ افراد اس طریقہ حج کو کہتے ہیں جس میں صرف حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔ عازمِ حج اس میں عمرہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف حج ہی کر سکتا ہے۔ احرام باندھنے سے حج کے اختتام تک عازمِ حج کو مسلسل احرام کی شرائط کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ حج افراد کرنے والے حاجی کو مفرد کہتے ہیں۔
اس ابتداء کے بعد اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں:
حجِ تمتع اور حجِ قران ادا کرنے والے پر استطاعت کی صورت میں قربانی (ہدی) ذبح کرنا واجب ہے اور حج افراد کرنے والے کے لیے مستحب ہے۔ قارن یا مُتَمَتِّع اگر استطاعت نہ ہونے کے سبب جانور ذبح نہ کر سکے تو پھر روزے رکھے گا، جن کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان فرمائی ہے کہ:
فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.
پھر جو کوئی عمرہ کو حج کے ساتھ ملانے کا فائدہ اٹھائے تو جو بھی قربانی میّسر آئے (کر دے)، پھر جسے یہ بھی میّسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے (زمانۂ) حج میں رکھے اور سات جب تم حج سے واپس لوٹو، یہ پورے دس (روزے) ہوئے، یہ (رعایت) اس کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مسجدِ حرام کے پاس نہ رہتے ہوں (یعنی جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو)، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے۔
البقرة، 2: 196
قارن اور متمتع کی یہ قربانی ’دمِ شکر‘ کہلاتی ہے اور ایامِ نحر (10، 11 اور 12 ذوالحجہ) کو حلق یا قصر سے پہلے منیٰ یا حدود حرم میں یہ قربانی کرنا واجب ہے، جبکہ مفرد کے لیے دمِ شکر مستحب ہے‘ واجب نہیں۔
قربانی کی دوسری صورت وہ ہے جسے عرفِ عام میں بقر عید کی قربانی کہا جاتا ہے جو ہر صاحبِ استطاعت و مقیم پر واجب ہوتی ہے‘ خواہ وہ حج کرنے جائے یا نہ جائے۔ اس کے وجوب کے لیے کسی بھی مسلمان کا مقیم اور صاحبِ استطاعت ہونا شرط ہے۔ اگر حاجی مسافر ہے یعنی مکہ میں اس کا قیام پندرہ دن سے کم ہے یا دمِ شکر کے علاوہ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس پر دمِ شکر کے علاوہ قربانی واجب نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اگر حاجی صاحبِ استطاعت ہے اور ایامِ قربانی کے دوران مکہ مکرمہ میں مقیم ہے‘ یعنی مکہ مکرمہ میں اس کا قیام پندرہ دن ہے یا مکہ میں ہی مستقل رہائش پذیر ہے تو اس پر جانور قربان کرنا واجب ہے۔ اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ یہ دوسری قربانی چاہے تو مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں ذبح کرلے چاہے اپنے وطن میں قربانی کی رقم بھیج دے یا وطن میں کسی کو قربانی کرنے کا کہہ دے۔ اگرچہ منیٰ میں قربانی کرنے کا ثواب ساری دنیا کی تمام جگہوں سے زیادہ ہے، لیکن کسی بھی جگہ قربانی کرنے سے واجب ادا ہوجائے گا۔ امام کاسانی فرماتے ہیں:
وَذَكَرَ في الْأَصْلِ وقال وَلَا تَجِبُ الْأُضْحِيَّةُ على الْحَاجِّ وَأَرَادَ بِالْحَاجِّ الْمُسَافِرَ فَأَمَّا أَهْلُ مَكَّةَ فَتَجِبُ عليهم الْأُضْحِيَّةُ.
الاصل میں ہے کہ حاجی پر (دمِ شکر کے علاوہ) قربانی واجب نہیں ہے۔ یہاں مراد مسافر حاجی ہےجبکہ اہل مکہ حج کریں تو اُن پر قربانی واجب ہو گی۔
الكاساني، بدائع الصنائع، 5: 63، بيروت: دار الكتاب العربي
اور امام محمد بن علی بن محمد حصکفی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
(عَلَى حُرٍّ مُسْلِمٍ مُقِيمٍ) بِمِصْرٍ أَوْ قَرْيَةٍ أَوْ بَادِيَةٍ، فَلَا تَجِبُ عَلَى حَاجٍّ مُسَافِرٍ؛ فَأَمَّا أَهْلُ مَكَّةَ فَتَلْزَمُهُمْ وَإِنْ حَجُّوا.
(عمومی قربانی واجب ہے) آزاد مسلمان مقیم پر جو شہر، دیہات یا جنگل میں مقیم ہو۔ یہ مسافر حاجی پر واجب نہیں ہے، جہاں تک اہل مکہ کا تعلق ہے تو ان پر (مقیم ہونے کے سبب صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں) قربانی واجب ہو گی اگرچہ وہ حج کریں۔
حصكفي، الدرالمختار، 6: 315، بيروت: دارالفكر
حاصل کلام یہ ہے کہ حجِ قران کرنے والے اور حجِ تمتع کرنے والے پر صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں صرف پہلی قسم کی قربانی یعنی دمِ شکر لازم ہے اور مقیم و صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں دونوں قسم کی قربانیاں یعنی دمِ شکر کے علاوہ بقر عید کی قربانی بھی لازم ہو گی۔ استطاعت نہ ہونے کی صورت میں قارن یا متمتع دس روزے رکھے گا جن کی ترتیب اوپر بیان کر دی گئی ہے۔ حجِ افراد کرنے والے پر دمِ شکر نہیں ہے البتہ اس کے مقیم اور صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں صرف بقر عید کی قربانی واجب ہوگی، اور اگر مقیم نہ ہو یا حج کے ضروری اخراجات کے علاوہ جانور خریدنے کی استطاعت نہ ہو تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔