جواب:
جس حدیثِ مبارکہ کے بارے میں آپ نے دریافت کیا ہے وہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَكْثِرُوْا ذِكْرَ اللَّهِ تَعَالى، حَتَّى يَقُولُوا: مَجْنُونٌ.
اﷲ تعالیٰ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں۔
ہماری رائے میں اس حدیثِ مبارکہ میں مجنون کا لفظ محاورتاً استعمال ہوا ہے۔ جیسے بہادر شخص کے لیے شیر کا لفظ محاورتاً بولا جاتا ہے اور خوبصورت کو چاند سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح جو شخص تمام دیگر امور سے توجہ ہٹا کر صرف ایک ہی کام میں لگ جائے تو محاورے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کو اس کام سے جنون کی حد تک شغف ہو گیا ہے یا فلاں کو فلاں سے جنون کی حد تک محبت ہے یعنی یہ دیوانہ ہو گیا ہے اور سوائے فلاں کام کے اسے کسی کا خیال ہی نہیں۔ اس لیے مذکورہ حدیث میں بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر پوری توجہ، لگاؤ اور کثرت کے ساتھ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ تمہیں دیکھ کر دنیادار لوگ تمہیں دیوانہ و مجنون خیال کریں۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی لگاؤ اور شغف کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت فرماتے تو کفار آپ کے بارے میں کہتے تھے:
وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌO
اور بے شک کافر لوگ جب قرآن سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ آپ کو اپنی (حاسدانہ بد) نظروں سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔
الْقَلَم، 68: 51
اسی طرح ایک مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے ماننے والوں کو سب سے کٹ کر ذکرِ الٰہی کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًاO
اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیں۔
الْمُزَّمِّل، 73: 8
المختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر دنیا سے اس قدر بیگانہ ہو کر کیا جائے کہ پوری توجہ، دھیان اور قوت ذکراللہ میں مشغول ہو جائے، اسی کا حدیثِ مبارکہ میں مطالبہ کیا گیا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔