جواب:
دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلامی نظامِ حیات کا تقاضا ایک پاک و صاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق و عادات کی تہذیب ہے۔ اسلام نے زمانہ جاہلیت کی بےبنیاد اور ظالمانہ رسوم کو مسترد کر کے ایک مہذب معاشرے کی بنیاد رکھی۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے قیام کے لئے جو پہلی تدبیر اختیار کی گئی وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچانا اور مرد و عورت کے اندر پائے جانے والے فطری میلانات کو اپنی جگہ باقی رکھتے ہوئے فطری انداز میں محفوظ کرنا ہے۔ اسی لیے ہر عاقل و بالغ عورت پر غیرمحرم مرد سے پردہ کرنا‘ چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کے علاوہ سارے جسم کو چھپانا شرعاً واجب قرار دیا گیا ہے۔ اگر کوئی عورت شرعی پردہ نہیں کرتی تو وہ گنہگار ہوگی۔ ارشادِ باری تعالیٰ:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔
الْأَحْزَاب، 33: 59
اگرچہ اس آیت مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات اور صاحبزادیوں کو مخاطب کیا گیا ہے مگر یہ پیغام قیامت تک آنے والی تمام عورتوں کے لیے ہے کہ جب وہ باہر نکلیں تو چادریں اوڑھ لیا کریں۔ سورہ نور میں ان رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے پردہ کرنا ہے:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.
اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔
النُّوْر، 24: 31
اسلام نے انسانوں کو اخلاق و کردار کے قیمتی جواہر سے نوازا ہے اور زندگی گزارنے کے اصول و آداب سے سرفراز کیا ہے۔ کن چیزوں کو اختیار کرنے سے ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ کی تعمیر ہوتی ہے اور کن چیزوں کو اپنانے کی وجہ سے معاشرہ داغدار ہوتا ہے اس کو بھی اسلام نے واضح فرما دیا ہے۔ اسلام شرم و حیاء کو ایک مسلمان کی زندگی کا بنیادی وصف قرار دیتا ہے۔ اسی لیے اسلامی معاشرے میں ’شرم و حیاء‘ کا بنیادی کردار ہے۔ حیاء انسان کے نیک و پاکباز اور سعادت مند ہونے کی علامت ہے۔ حضور نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا، وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ.
ہر دین کی (ایک خاص) عادت ہوتی ہے اور اسلام کی عادت شرم و حیاء ہے۔
ابن ماجه، السنن، كتاب الزهد، باب الحياء، 2: 1399، رقم: 4181، بيروت: دار الفكر
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
إنَّ الْحَيَاءَ وَالإِيمَانَ قُرِنَا جَمِيعًا ، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُهُمَا رُفِعَ الآخَرُ.
حیاء اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے۔
ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 213، رقم: 25350، الرياض: مكتبة الرشد
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ.
ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیاء بھی ایمان کی ایک (اہم) شاخ ہے۔
درج بالا ارشاداتِ ربانی میں پردے کے واضح احکام بیان ہورہے ہیں۔ اس لیے کم از کم شرعی پردہ کرنا ہر عورت پر لازم ہے، اگر کوئی نقاب کرتی ہے یا برقعہ اوڑھتی ہے تو یہ بلاشبہ پسندیدہ عمل ہے جس کا وہ خدا کی بارگاہ سے اجر پائے گی۔ اس کے برعکس اگر کوئی عورت شرعی پردہ بھی نہیں کرتی تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہے۔ لہٰذا عورت پر شادی بیاہ، گھر، گلی بازار یا دیگر مواقع پر ہر غیر مرد سے شرعی پردہ کرنا فرض ہے۔ عورتیں خوف الہٰی دل میں رکھیں ایک دوسری کی طرف دیکھ کر اپنی آخرت تباہ نہ کریں، ہمیشہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے باپردہ لباس پہنیں ورنہ شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شوہر مناسب طریقے سے منع کریں اور حکمت سے پیش آئیں تاکہ رشتہ داریاں بھی قائم رہیں اور شرعی حکم پر عمل بھی ہو جائے۔ اگر شرعی حدود قائم رکھنا ممکن نہ ہو تو ایسی شادی میں شامل ہونا درست نہ ہو گا۔
شادی میں ڈھول، باجا اور دف بجانا جائز ہے مگر اس میں افراط و تفریط نہیں ہونی چاہیے۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں اوقات مقرر ہونے چاہئیں تاکہ نمازیں فوت نہ ہوں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔