Fatwa Online

کیا عدت گزرنے کے بعد دی گئی طلاق واقع ہوتی ہے؟

سوال نمبر:4948

<p>السلام علیکم سر! مجھے طلاق کے مسئلے میں آپ کی راہنمائی درکار ہے۔</p> <p>میں نے 2012 میں اپنی بیوی کو موبائل پیغام پر ان الفاظ میں طلاق دی: ’میں تمہارے مطالبے پر تمہیں طلاق دے رہا ہوں، ہم دونوں جانتے ہیں کہ دورانِ حمل طلاق واقع نہیں ہوتی تو یہ بچہ پیدا ہونے کے بعد مؤثر ہو جائے گی۔‘ بچے کی پیدائش تک ہم نے رجوع نہیں کیا۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد ہم نے میاں بیوی کے طور پر رہنا شروع کر دیا۔</p> <p>دوسری مرتبہ 2014,15 میں ہمارے درمیان لڑائی ہوئی اور اس دوران میں نے شدید غصے میں بیوی کو ایک طلاق دی۔ مگر ایک مہینے کے اندر ہماری صلح ہو گئی اور ہم نے میاں بیوی کے طور پر رہنا شروع کر دیا۔</p> <p>تیسری طلاق بیوی کے مطالبے پر ہی اگست 2017 کو وٹس ایپ پر دی۔ اس بعد ہمارے درمیان کوئی رجوع نہیں ہوا۔</p> <p>مجھے پہلی طلاق کے مؤثر ہونے میں اشکال ہے۔ کیا اسے طلاق شمار کیا جائے گا؟ کیونکہ اس کی عدت تو غیر حاملہ ہونے پر شروع ہونی تھی جبکہ میں نے اس کے غیرحاملہ ہوتے ہی رجوع کر لیا تھا تو کیا وہ طلاق ہوگئی؟ اسی طرح تیسری طلاق جو میں نے اسے وٹس ایپ وائس میسج کے ذریعے دی ہے کیا وہ واقع ہوگئی؟</p> <p>مفتی صاحب ہمارے تین بچے ہیں، بڑے دو میرے پاس ہیں اور چھوٹا اپنی ماں کے پاس ہے۔ ہم دونوں کو اب پنی غلطی کا احساس ہے۔ ہم نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہمارے دوبارہ اکٹھے رہنے کی کوئی سبیل ہے؟</p>

سوال پوچھنے والے کا نام: سکندر تالپور

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 30 جولائی 2018ء

موضوع:مطلقہ کی عدت

جواب:

دورانِ حمل (Pregnancy) بیوی کو دی گئی طلاق بھی اسی طرح واقع ہوتی ہے جیسے معمول میں دی گئی طلاق‘ فرق صرف یہ ہے کہ حاملہ (Pregnant) کی عدت طلاق کے فوراً بعد سے شروع ہو کر وضعِ حمل (Childbirth) تک ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:

وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ.

اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے۔

الطلاق، 65: 4

بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی عدت مکمل ہو جاتی ہے اور عدت کے مکمل ہوتے ہی میاں بیوی کا نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ اگر شوہر نے دورانِ حمل بیوی کو ایک طلاق دی ہے تو بچے کی پیدائش تک ان کا نکاح قائم رہتا ہے اور شوہر کے پاس رجوع کا حق ہوتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی ان کا نکاح ختم ہو جاتا ہے اور دوبارہ نکاح (تجدیدِ نکاح) کے بغیر رجوع نہیں ہو سکتا کیونکہ عدت مکمل ہونے پر بیوی شوہر کے نکاح سے نکل جاتی ہے۔ اس کے بعد بیوی کو حق ہوتا ہے کہ چاہے تو سابقہ شوہر کے ساتھ ہی دوبارہ نکاح کر لے یا دستور کے مطابق کسی دوسرے شخص سے شادی کر لے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.

اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔

البقرة، 2: 232

حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ انہوں نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے ایک طلاق سے خوش کر دو جبکہ وہ حاملہ تھیں تو انہوں نے ایک طلاق دے دی، پھر نماز کو چلے گئے، جب وہ واپس آئے تو بچہ پیدا ہو چکا تھا۔ انہوں نے فرمایا اللہ اس کا ناس کرے اس نے میرے ساتھ مکر کیا، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سَبَقَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ، اخْطُبْهَا إِلَى نَفْسِهَا.

کتاب اللہ کے مطابق اس کی عدت پوری ہو گئی، اب پیغام (نکاح) دوبارہ بھیج دو۔

ابن ماجه، السنن، كتاب الطلاق، باب المطلقة الحامل إذا وضعت ذا بطنها بانت، ۱: 653، رقم: 2026، بيروت: دار الفكر

درج بالا آیت و روایت سے معلوم ہوا کہ طلاقِ رجعی (ایک یا دو طلاق) کی عدت مکمل ہونے تک میاں بیوی کا نکاح قائم اور رجوع کا حق محفوظ رہتا ہے‘ لیکن عدت پوری ہونے پر ان کا نکاح ختم ہو جاتا ہے اور رجوع کے لیے تجدیدِ نکاح ضروری ہے۔

آپ نے جب 2012ء میں اپنی بیوی کو دورانِ حمل پہلی طلاق دی اور دورانِ عدت رجوع نہیں کیا تو بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ دونوں کا نکاح ختم ہو گیا۔ شرعاً رجوع کے لیے دوبارہ نکاح کرنا ضروری تھا‘ جو لاعلمی کی بنیاد پر آپ نے نہیں کیا اور دوبارہ اکٹھے رہنا شروع کر دیا۔ اس دوران آپ کا رشتہ ازدواج بغیر نکاح کے قائم رہا جوکہ ناجائز تھا‘ اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ طلاق کی عدت مکمل ہونے پر کیونکہ نکاح ختم ہو چکا تھا‘ اس لیے بعد میں دی گئی کوئی بھی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کے وقوع کے لیے نکاح کا ہونا ضروری ہے‘ بغیر نکاح کے دی گئی طلاق فضول ہے کیونکہ محلِ طلاق (یعنی نکاح) ہی باقی نہیں ہے۔

ابھی تک آپ کی 2012 میں دی گئی صرف پہلی طلاق ہی واقع ہوئی ہے‘ اگر آپ باہمی رضامندی سے دبارہ اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو دوبارہ نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اس صورت میں آپ کے پاس طلاق کے صرف دو حق باقی ہوں گے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 19 April, 2024 01:36:42 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4948/