السلام علیکم! محترم میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے دوست کے اس مسلے کو تفصیلی جواب سے مستفید فرمائیں۔
گزارش ہے کہ میرے دوست شادی شدہ اور تین بچوں کے والد ہیں ایک کمپنی میں ملازمت
کرتے ہیں اور انہیں اپنی ایک ساتھی خاتون ورکر سے محبت ہوگئی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ وہ خاتون بھی شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں ہیں اور بعد میں پتا چلا
کہ وہ خاتون اپنی اذدواجی زندگی سے شدید ناخوش ہیں اور میرے دوست کو عرصہ دراز سے پسند
کرتی ہیں۔ میرے دوست نے جب مجھے اس مسئلے سے آگاہ کیا تو ساتھ ہی یہ خواہش بھی بتائی
کہ وہ اس مسئلے کو اسلامی ہدایات کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں اور میں نے ان سے وعدہ
لیا ہے کہ میں دارالافتاء سے ہدایات لے کر انہیں مطلع کروں گا۔
میرے دوست کے مطابق انہوں نے کوئی بری حرکت نہیں کی ہے اور نہ کوئی ناجائز حرکت کی ہے اور نہ کوئی ایسا عمل کیا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہو ان کے سوالات حسب ذیل ہیں:
براہ مہربانی میرے ہر سوال کا الگ الگ جواب دیں۔ اللہ تعالیٰ علمائے کرام کے درجات بلند فرمائے جو انبیاء کے وارث اور ہدایت کا ذریعہ ہیں۔
والسلام
جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
يٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo
اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا۔
الاحزاب، 33: 32
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے قیامت تک آنے والی تمام عورتوں کو تعلیم دی ہے کہ کسی غیر محرم مرد سے ضروری بات کرتے وقت نرم لہجہ نہ اختیار کرنا کیونکہ جب بھی عورت غیر مرد سے نرم لہجہ اپناتی ہے یا لچک دکھاتی ہے تو بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: لَا تَلِجُوا عَلَى المُغِيبَاتِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِكُمْ مَجْرَى الدَّمِ، قُلْنَا: وَمِنْكَ؟ قَالَ: وَمِنِّي، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمُ.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جن عورتوں کے خاوند موجود نہ ہوں ان کے پاس نہ جاؤ کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ حضرت جابر فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے لیے بھی ایسا ہی ہے؟ حضور نبی اکرم a نے فرمایا: ہاں میرے لیے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ (میرا ہمزاد) مسلمان ہو گیا۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ.
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تنہا عورت (نامحرم) کے پاس جانے سے پرہیز کرو۔ انصار سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ! دیور کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: دیور تو موت ہے۔
یہاں صرف دیور نہیں بلکہ تمام غیر محرم رشتے مثلاً جیٹھ، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھو پھی زاد وغیرہ سب شامل ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما عَنْ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً وَاكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا قَالَ ارْجِعْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تنہائی میں کوئی شخص کسی عورت کے پاس نہ جائے مگر اس کے ذی محرم کے ساتھ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ یا رسول اﷲ! میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے۔ فرمایا کہ غزوہ میں نہ جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔
لہٰذا بغیر نکاح کے مرد وعورت کا اظہار محبت کرنا اور وہ شادی شدہ جوڑے کے ازدواجی تعلقات کمزور کر کے ناجائز تعلقات قائم کرنا حرام عمل ہے کیونکہ یہی ناجائز تعلقات زنا کا سبب بنتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے زنا کے سدّباب کے لیے اس طرح کے تمام راستوں کو روکا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلاً.
اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بیشک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے۔
بني اسرائيل، 17: 32
اس لیے خواہشات کی تکمیل کی خاطر ایسی محبت کا اظہار گناہ ہے جو کسی گھر کو اجاڑ دے، کسی بچے سے اس کی ماں چھین لے اور فتنہ و فساد برپا کر دے۔
أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاَقًا فِى غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ.
جو عورت اپنے خاوند سے بلا وجہ طلاق مانگے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔
أبوداود، السنن، كتاب الطلاق تفريع أبواب الطلاق، باب في الخلع، 2: 268، بيروت: دار الفكر
اس لیے بلاوجہ طلاق یا خلع کا مطالبہ سخت گناہ ہے۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بیشک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
الرُّوْم، 30: 21
اس لیے میاں بیوی ایک دوسرے سے محبت کریں، اسی کا حکم دیا گیا ہے اور اسی کو جذبات کا جائز و حلال راستہ بتایا گیا ہے۔ حلال کو چھوڑ کر حرام کی طرف جانا ازدواجی زندگی کی تباہی و بربادی ہے اور حکمِ الٰہی کی خلاف ورزی بھی ہے۔
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔
البقره، 2: 232
اور بیوہ کے بارے میں ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.
اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔
البقره، 2: 234
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ.
پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے، یہ اﷲ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اﷲ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں۔
البقره، 2: 229
اس لیے جب میاں بیوی کے درمیان اختلافات اتنے شدید ہو جائیں کہ حدود اللہ کے پامال ہونے کا خدشہ ہو تو انہیں علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے۔ اگر مذکورہ خاتون بھی بوجوہ شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اپنا حق استعمال کرتے ہوئے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر شوہر طلاق دینے پر راضی نہیں ہوتا اور نہ حقوق کی ادائیگی کرتا ہے تو بذریعہ عدالت تنسیخِ نکاح کروا لے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔