Fatwa Online

غسل طہارت کے متعلق وسوسہ ہونے پر نماز کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:4834

السلام علیکم! میں روزانہ دفتر آنے سے پہلے نہاتا ہوں اور عموماً غسل کے فرائض بھی سرانجام دیتا ہوں۔ آج (جبکہ مجھ پر غسل فرض بھی تھا) میں نہایا اور دفتر آ گیا۔ نماز کے وقت مجھے یہ وسوسہ آیا کہ نجانے میں نے غسل کے فرائض مکمل کیے تھے یا نہیں۔ مجھے لگتا یہی ہے کہ میں نے غسل کیا تھا، مگر پھر بھی تذبذب کا شکار رہا ہوں۔ دفتر میں ہونے کی وجہ سے میں نہانے سے بھی قاصر تھا۔ اس سلسلے میں رہنمائی درکار ہے کہ کیا میں اس تذبذب میں کہ غسل کیا تھا یا نہیں، نماز پڑھ سکتا ہوں؟ یا مجھے نماز سے پہلے غسل کرنا لازمی ہوگا؟

سوال پوچھنے والے کا نام: علی

  • مقام: فیصل آباد
  • تاریخ اشاعت: 01 مئی 2018ء

موضوع:طہارت

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِن كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ.

اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ۔

الْمَآئِدَة، 5: 6

اس آیتِ مبارکہ سے احناف نے غسل کے تین فرائض ثابت کیے ہیں، جو درج ذیل ہیں:

وَفَرْضُ الْغُسْلِ: الْمَضْمَضَةُ وَالِاسْتِنْشَاقُ وَغَسْلُ سَائِرِ الْبَدَنِ.

غسل کے فرائض یہ ہیں: کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور پورے بدن پرپانی بہانا۔

مرغيناني، الهداية شرح البداية، فصل في الغسل، 1: 16، المكتبة الإسلامية

اور زین الدین ابن نجیم بیان کرتے ہیں:

وَفَرْضُ الْغُسْلِ غَسْلُ فَمِهِ وَأَنْفَهُ وَبَدَنِهِ.

غسل کے فرائض ہیں کہ منہ دھونا (کلی کرنا)، ناک (میں پانی ڈال کر) دھونا اور پورے جسم کو دھونا۔

ابن نجيم، البحرالرائق، كتاب الطهارة، 1: 47، بيروت: دار المعرفة

اس لیے غسلِ طہارت کے دوران اگر جنبی کلی نہ کرے یا ناک میں پانی نہ ڈالے یا جسم کا کوئی حصہ خشک رہ جائے تو جسم پاک نہیں ہوتا۔

بصورت مسئلہ اگر آپ نے تینوں فرائض یا ان میں سے کوئی ایک فرض چھوڑ دیا ہے تو غسل دوبارہ کریں، جو نمازیں اس دوران ادا کی گئی ہیں وہ بھی لوٹائی جائیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 01 November, 2024 05:31:20 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4834/