جواب:
مرنے والے کے ترکہ سے اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات منہا کیے جائیں، اگر اس پر کوئی قرض تھا تو ادا کیا جائے، اگر مرنے والے نے کسی کے بارے میں وصیت کی تھی تو اس مد میں زیادہ سے زیادہ ایک تہائی (1/3) دیا جا سکتا ہے۔ تجیز و تکفین، قرض (اگر تھا) کی ادائیگی اور وصیت (اگر تھی) پوری کرنے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ ورثاء میں تقسیم ہو گا۔ مسئلہ مذکور کی نوعیت کے مطابق کل قابلِ تقسیم ترکہ سے بیٹیوں کو دو تہائی (2/3) حصہ ملے گا۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَج وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ.
پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی (2/3) حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا (1/2) ہے۔
النساء، 4: 11
دوتہائی حصہ مرحوم کی پانچوں بیٹیوں میں برابر تقسیم ہو گا۔ بیوہ کو کل ترکہ (جو تجہیز و تکفین، قرض، وصیت کے بعد بچا تھا) سے آٹھواں (1/8) حصہ ملے گا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْم بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَآ اَوْ دَیْنٍ.
پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان (بیواؤں) کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں (1/8) حصہ ہے، تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
النساء، 4: 12
بیوہ اور بیٹیوں کو ان کے حصے کی ادائیگی کے بعد باقی بچ جانے والا مال مرحوم کے قریبی مرد کو بطور عطیہ دیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَی رَجُلٍ ذَکَرٍ.
میراث اُس کے حق دار لوگوں کو پہنچا دو اور جو باقی بچے تو وہ سب سے قریبی مرد کے لیے ہے۔
باقی بچا ہوا جن مردوں کو ملے گا ان میں ماں شریک بھائی شامل نہیں ہیں، اس لیے دادی کی طرف سے آپ کے چچا کو آپ کے والد کے ترکہ سے کچھ نہیں ملے گا۔ جو قریبی مرد ترکہ میں حصہ پاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
اگر مذکورہ مردوں میں سے کوئی موجود نہیں ہے تو باقی سارا ترکہ بیٹیوں میں بطورِ رد لوٹا دیا جائے گا اور ان میں برابر تقسیم ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔