Fatwa Online

کیا جنون کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہوتی ہے؟

سوال نمبر:4775

اگر کسی شخص کی وقتی طور پر عقل زائل ہو جائے اور اس وقت وہ بالکل مجنوں کی طرح ہو جائے توکیا اس دوران دی ہوئی طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟ مدلل جواب درکار ہے۔

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد سیف اللہ

  • مقام: کوٹ مومن
  • تاریخ اشاعت: 21 مارچ 2018ء

موضوع:طلاق  |  مریض کی طلاق

جواب:

عقل انسان کا سب سے بڑا شرف ہے، اپنی اسی صلاحیت کی بنیاد پر وہ دین کا مخاطب قرار پاتا ہے۔ یہ دین کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ بچے پر، سوئے ہوئے پر اور پاگل شخص پر دین کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ قرآن کریم میں مریض کے بارے میں ہے:

ولَاعَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ.

اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے۔

النور، 24: 61

مفسرین کرام اس آیت مبارکہ کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:

فَالْحَرَجُ مَرْفُوعٌ عَنْهُمْ فِي هَذَا.

جو مریض لوگ ہیں، مرض کی حالت میں ان سے حرج یعنی تنگی وگرفت اٹھالی گئی ہے۔

  1. عبد الرحمن بن محمد، تفسیر الثعالبي، 3: 127، بیروت: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات
  2. قرطبي، جامع لأحکام القرآن، 12: 313، القاہرة: دار الشعب
  3. عبد الحق بن غالب، المحرر الوجیز في تفسیر الکتاب العزیز، 4: 195، بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیة

علامہ قرطبی مزید بیان کرتے ہیں:

فَبَیَّنَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: أَنَّهُ لَاحَرَجَ عَلَی الْمَعْذُورِیْنَ.

اس آیت مبارکہ نے واضح کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔

قرطبي، جامع لأحکام القرآن، 8: 226

دوسری آیت کریمہ میں ہے:

وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍط

اور اس (اﷲ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔

الحج، 22: 78

امام ابو بکر احمد بن علی الرازی الجصّاص الحنفی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مِنْ ضِیقٍ وَکَذَلِکَ قَالَ مُجَاهِدٌ: وَیُحْتَجُّ بِهِ فِي کُلِّ مَا اُخْتُلِفَ فِیهِ مِنْ الْحَوَادِثِ أَنَّ مَا أَدَّی إلَی الضِیقِ فَهُوَ مَنْفِيٌّ وَمَا أَوْجَبَ التَّوْسِعَةَ فَهُوَ أَوْلَی وَقَدْ قِیلَ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِي الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ أَنَّهُ مِنْ ضِیقٍ لَا مَخْرَجَ مِنْهُ.

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حرج کا مطلب ہے تنگی۔ اسی طرح (ان کے شاگرد) حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس آیت کریمہ سے مختلف حوادث و واقعات میں یہ دلیل پکڑی جاسکتی ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے اس کا وجود نہیں اور جو فراخی وآسانی پیداکرے وہی بہترہے۔ آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔

جصّاص، أحکام القرآن، 5: 90، بیروت: دار إحیاء التراث العربي

امام قاضی بیضاوی فرماتے ہیں:

ضِیقٌ بِتَکْلِیْفِ مَایَشْتَدُّ الْقِیَامُ بِهِ عَلَیْکُمْ.

تنگی، ایسی تکلیف کا حکم ہے جس پر قائم رہنا تم پر سخت (مشکل) ہو۔

  1. امام بیضاوي، أنوار التنزیل وأسرار التأویل، 4: 143، بیروت: دار الفکر
  2. علامه آلوسي، روح المعاني، 17: 209، بیروت: دار إحیاء التراث العربي
  3. محمد بن محمد عمادي، تفسیر أبي السعود، 6: 122، بیروت: دار إحیاء التراث العربي

دیگر مفسرین نے بھی اس آیت مبارکہ میں حرج کا معنی تنگی ہی کیا ہے۔ چند حوالہ جات درج ذیل ہیں:

  1. امام فخر الدین الرازي، التفسیر الکبیر، 23: 64، بیروت: دار الکتب العلمیة
  2. حافظ جلال الدین سیوطي، الدر المنثور، 6: 79، بیروت: دار الفکر
  3. محمد بن جریر طبري، جامع البیان، 17: 206، بیروت: دار الفکر
  4. شیخ محمد علی شوکاني، فتح القدیر، 3: 472، بیروت: دار الفکر

حدیث مبارکہ میں بھی حرج کا معنی تنگی ہی بیان کیا گیا ہے:

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا سَأَلَتِ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ هَذِهِ الْآیَةِ {وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ}[الحج، 22: 78] قَالَ: الضِّیقُ.

(هَذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الْإسْنَادِ وَلَمْ یُخْرِجَاهُ)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت مبارکہ {وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ} کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الضیق (تنگی)۔

امام حاکم فرماتے ہیں:

اس حدیث مبارکہ کی اسناد صحیح ہیں لیکن اس کو بخاری ومسلم نے روایت نہیں کیا۔

حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 424، رقم: 3477، بیروت: دار الکتب العلمیة

ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ بچہ سمجھدار ہونے تک، سونے والا بیدار ہونے تک اور مجنوں عقلمند ہونے تک شریعت کے مکلف نہیں ہوتے:

عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنِ النَّائِمِ حَتَّی یَسْتَیْقِظَ وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّی یَحْتَلِمَ وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّی یَعْقِلَ.

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے۔ بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک عقلمند نہ ہو جائے۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 118، رقم: 956، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. أبي داود، السنن، 4: 141، رقم: 4403، بیروت: دار الفکر
  3. ترمذي، السنن، 4: 32، رقم: 1423، بیروت۔ لبنان: دار احیاء التراث العربي

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنِ النَّائِمِ حَتَّی یَسْتَیْقِظَ وَعَنِ الْمُبْتَلَی حَتَّی یَبْرَأَ وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّی یَکْبُرَ.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایک سوئے ہوئے سے جب تک بیدار نہ ہوجائے۔ دوسرے دیوانے سے جب تک دیوانگی نہ جائے۔ تیسرے بچے سے جب تک بالغ نہ ہوجائے۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 6: 144، رقم: 25157
  2. أبي داود، السنن، 4: 139، رقم: 4398
  3. ابن ماجہ، السنن، 1: 658، رقم: 2041، بیروت: دار الفکر

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کو چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ محدثین کی کثیر تعداد نے نقل کیا ہے۔

عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: کُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ.

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہر طلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش (کی دی ہوئی) طلاق کے۔

  1. عبد الرزاق، المصنف، 6: 409، رقم: 11415، بیروت: المکتب الاسلامي
  2. ابن أبي شیبة، المصنف، 4: 72، رقم: 17912، الریاض: مکتبة الرشد

امام بخاری رحمہ اﷲ ترجمۃ الباب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول نقل کرتے ہیں:

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما: طَلَاقُ السَّکْرَانِ وَالْمُسْتَکْرَهِ لَیْسَ بِجَائِزٍ.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: مدہوش اور مجبور کی طلاق جائز نہیں ہے۔

بخاري، الصحیح، 5: 2018، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة

فقہاء کرام کے نزدیک جنون میں دی جانے والی طلاق کی حیثیت درج ذیل ہے:

وَأَرَادَ بِالْمَجْنُونِ مَنْ فِيْ عَقْلِهِ اخْتِلَالٌ، فَیَدْخُلُ الْمَعْتُوهُ وَأَحْسَنُ الْأَقْوَالِ فِيْ الْفَرْقِ بَیْنَهُمَا أَنَّ الْمَعْتُوهَ هُوَ الْقَلِیلُ الْفَهْمِ الْمُخْتَلِطُ الْکَلَامِ الْفَاسِدُ التَّدْبِیرِ لَکِنْ لَا یَضْرِبُ وَلَا یَشْتُمُ بِخِلَافِ الْمَجْنُونِ وَیَدْخُلُ الْمُبَرْسَمُ، وَالْمُغْمَی عَلَیْهِ وَالْمَدْهُوشُ.

جنون (پاگل پن) کا مطلب ہے کسی کی عقل میں خرابی و خلل آنا، اس میں معتوہ شامل ہے، دونوں میں فرق کرنے میں بہترین قول یہ ہے کہ معتوہ کا مطلب ہے کم فہم، جس کی گفتگو میں غلط اور صحیح خلط ملط ہو لیکن معتوہ (مغلوب الغضب) نہ مارتا ہے نہ گالی گلوچ بکتا ہے، بخلاف مجنوں (پاگل) کے اس میں سرسام والا، بیہوش اور مدہوش داخل ہیں۔

ابن نجیم الحنفی، البحرالرائق، 3: 268، بیروت: دارالمعرفة

فَاَلَّذِيْ یَنْبَغِيَ التَّعْوِیلُ عَلَیْهِ فِيْ الْمَدْهُوشِ وَنَحْوِهِ إنَاطَةُ الْحُکْمِ بِغَلَبَةِ الْخَلَلِ فِيْ أَقْوَالِهِ وَأَفْعَالِهِ الْخَارِجَةِ عَنْ عَادَتِهِ، وَکَذَا یُقَالُ فِیمَنْ اخْتَلَّ عَقْلُهُ لِکِبَرٍ أَوْ لِمَرَضٍ أَوْ لِمُصِیبَةٍ فَاجَأَتْهُ: فَمَا دَامَ فِيْ حَالِ غَلَبَةِ الْخَلَلِ فِيْ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ لَا تُعْتَبَرُ أَقْوَالُهُ وَإِنْ کَانَ یَعْلَمُهَا وَیُرِیدُهَا لِأَنَّ هَذِهِ الْمَعْرِفَةَ وَالْإِرَادَۃَ غَیْرُ مُعْتَبَرَةٍ لِعَدَمِ حُصُولِهَا عَنْ الْإِدْرَاکِ صَحِیْحٌ کَمَا لَا تُعْتَبَرُ مِنْ الصَّبِیِّ الْعَاقِلِ.

مدہوش وغیرہ کی قابل اعتمادبات یہ ہے کہ اس صورت میں حکم شرعی کا مدار اس کے اقوال و افعال میں عادت سے ہٹ کر اور اس کے خلاف بیہودگی و خرابی پائی جانے سے ہے یوں جس کی عقل میں بڑھاپے، بیماری اور کسی اچانک مصیبت کی بنا پر خلل آ جائے تو اس کے اقوال وافعال پر جب تک یہ کیفیت غالب رہے گی، اس کی باتوں کا اعتبار نہ ہو گا۔ اگرچہ ان کو جانتا ہو اور ان کا ارادہ کرے کیونکہ یہ جاننا اور ارادہ کرنا معتبر نہیں اس لیے کہ ادراک صحیح سے حاصل نہیں ہوا جیسے عقلمند بچے کی بات کا اعتبار نہیں۔

  1. ابن عابدین، ردالمحتار، 3: 244، بیروت: دارلفکرللطباعة والنشر
  2. الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة، 1: 353، بیروت: دار الفکر
  3. الکاساني، بدائع الصنائع، 3: 100، بیروت: دار الکتاب العربي
  4. مرغیناني، الهدایة شرح البدایة، 4: 188، المکتبة الإسلامیة
  5. ابن الهمام، شرح فتح القدیر، 3: 487، بیروت: دار الفکر

عبدالرحمن الجزیری ’’الفقہ علی المذاہب الأربعۃ‘‘ میںلکھتے ہیں:

وَالتَّحْقِیْقُ عِنْدَ الْحَنَفِیَّةِ أَنَّ الْغَضْبَانَ الَّذِيْ یُخْرِجُہٗ غَضْبُهٗ عَنْ طَبِیْعَتِهِ وَعَادَتِهِ بِحَیْثُ یَغْلِبُ الْهِذْیَانُ عَلَی أَقْوَالِهِ وَأَفْعَالِهِ فَإِنَّ طَلَاقَهٗ لَایَقَعُ، وَإِنْ کَانَ یَعْلَمْ مَا یَقُوْلُ وَیَقْصُدُهٗ لِأَنَّهٗ یَکُوْنُ فِيْ حَالَةِ یَتَغَیَّرُ فِیْهَا إِدْرَاکُهٗ، فَلَایَکُوْنُ قَصْدُهٗ مَبْنِیًّا عَلَی إِدْرَاکٍ صَحِیْحٍ، فَیَکُوْنُ کَالْمَجْنُوْنِ، لِأَنَّ الْمَجْنُونَ لَایَلْزَمُ أَنْ یَکُوْنَ دَائِمًا فِيْ حَالَةٍ لَایَعْلَمُ مَعَهَا مَا یَقُوْلُ: فَقَدْ یَتَکَلَّمُ فِيْ کَثِیْرِ مِنَ الْأَحْیَانِ بِکَلَامٍ مَعْقُوْلٍ، ثُمَّ لَمْ یَلْبِثْ أَنْ یَّهْذِيَ.

حنفیہ کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ وہ غصہ والاشخص جسے اس کاغصہ اس کی طبیعت اور عادت سے اس طرح باہر کردے کہ اس کی باتوں اور اس کے کاموں پر بے مقصدیت غالب آ جائے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی، اگرچہ وہ جانتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہاہے اور ارادہ سے ہی کہتا ہو کیونکہ وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جس میں اس کا ادراک یعنی سوجھ بوجھ میں تغیر اور تبدیلی آ جاتی ہے لہٰذا اس کا قصد و ارادہ صحیح شعور و صحیح ادراک پر مبنی نہیں ہوتا، پس وہ (مجنوں و دیوانہ تو نہیں ہوتا لیکن وقتی طور پر) مجنوں کی طرح ہو جاتا ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ مجنوں ہمیشہ ویسی حالت میں رہے کہ جو کہے اسے اس کاپتہ نہ ہو بلکہ بعض اوقات میں وہ معقول (عقل مندوں کی طرح) باتیں کرتا ہے، پھر اوٹ پٹانگ مارنا شروع کر دیتا ہے۔

عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة، 4: 294۔ 295، بیروت. لبنان: داراحیاء التراث العربي

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ پاگل پن طاری ہو جانے کی صورت میں، پاگل پر قانون لاگو نہیں ہوتا جب تک کہ وہ عقل مند نہ ہو جائے۔ لہٰذا وقتی مجنوں کی دی ہوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی کیونکہ ایسا شخص مرفوع القلم ہوتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 01 November, 2024 05:37:11 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4775/