Fatwa Online

ہر وقت ذکرِ الٰہی کرنے سے کیا مراد ہے؟

سوال نمبر:4450

السلام علیکم مفتی صاحب! ہر وقت ذکر کرنے سے کیا مراد ہے؟ کونسا ایسا ذکر ہے جو انسان ہر وقت زبان سے ادا کرتا رہے؟ کیا اس سے مراد ہے کہ انسان ہر وقت قرآنِ مجید کو یاد کرنے میں‌ لگا رہے؟ کیا اللہ تعالیٰ‌ کو یاد کرنے پر بھی نیکیاں‌ ملتی ہیں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: اعجاز احمد

  • مقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 17 اکتوبر 2017ء

موضوع:تصوف

جواب:

ذکر‘ نسیان (بھول) کا الٹ ہے جس کے معانی بیان کرنا، چرچا کرنا، تذکرہ کرنا، یاد آوری، کسی چیز کو محفوظ کرنا، کسی بات کا دل میں مستحضر ہونے اور حفاظت کرنے کے ہیں۔ ذکرِ الٰہی سے مراد اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے، ہر کام میں اس کی منشا کا خیال کرنے، قلب و ذہن کو اس کے تصور میں مشغول رکھنے کے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰـفِلِیْنَo

اور اپنے رب کا اپنے دل میں ذکر کیا کرو عاجزی و زاری اور خوف و خستگی سے اور میانہ آواز سے پکار کر بھی، صبح و شام (یادِ حق جاری رکھو) اور غافلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔

الاعراف، 7: 205

آیت مبارکہ میں اﷲ کا ذکر کرنے کا مقصد انسان کے دل میں عاجزی وزاری اور خوف وخستگی پیدا کرنا ہے۔ اور اسی طرح اگلی آیت مبارکہ میں ایمان والوں کی نشانی بتائی گئی ہے کہ اﷲ کا ذکر ان کے دلوں میں خوف پیدا کرتا ہے، ایمان میں زیادتی کرتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ ﷲُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰـتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo

ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)

الانفال، 8: 2

اور اﷲتعالیٰ کے ذکر سے ایمان والوں کو اطمینان ملتا ہے:

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِکْرِ ﷲِ ط اَلَا بِذِکْرِ اﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo

جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اﷲ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

الرعد، 13: 28

اور حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ: یَقُولُ ﷲُ تَعَالَی: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَکَرَنِي فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَإِنْ ذَکَرَنِي فِي مَلَأٍ ذَکَرْتُهُ فِي مَلَأ خَیْرٍ مِنْهُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي یَمْشِي أَتَیْتُهُ هَرْوَلَةً۔.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (یعنی ذکرِ خفی) کرتا ہے تو میں بھی اپنے (شایانِ شان) اکیلے اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (یعنی ذکرِ جہری) کرتا ہے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آتا ہے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابرمیرے نزدیک آتا ہے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔

  1. بخاري، الصحیح، 6: 2694، رقم: 6970، بیروت: دار ابن کثیر الیمامه
  2. مسلم، الصحیح، 4: 2061، رقم: 2675، بیروت: دار احیاء التراث العربي

گویا اصل مقصود یہ ہے کہ انسان ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں رہے، دنیاوی کاموں کی انجام دہی کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کے یاد کو اپنے دل میں بسائے رکھے۔ اس کی حدود و احکام کا پابند رہے۔ یوں یادِ الٰہی‘ اطاعتِ الٰہی کا سبب بنتی ہے۔ جب کوئی شخص فرائض و واجبات کی ادائیگی سمیت احکامِ اسلامی کے مطابق زندگی گزارے، ذاتی و دنیاوی امور کی انجام دہی میں بھی اپنی زبان کو تلاوتِ قرآن و درود و سلام سے تر رکھے تو وہ ذکرِ الٰہی میں ہے اور اس کے درجات بلند ہو رہے ہوتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 01 November, 2024 04:51:03 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4450/