جواب:
اگر بیوی کے دل میں کسی وجہ سے نفرت پیدا ہوجائے اور وہ شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ حقِ خلع استعمال کر سکتی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه.
پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے۔
البقرة، 2: 229
اگر شوہر طلاق دے تو بیوی کو دیا گیا مال واپس لینے سے منع کیا گیا ہے لیکن جب شوہر کی طرف سے کوئی خرابی نہ ہو مگر عورت کسی وجہ سے اُس کے ساتھ نہ رہنا چاہتی ہو تو وہ خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے اور علیحدگی کی صورت میں مرد حق مہر وغیرہ کی رقم واپس لے سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا جو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں کسی وجہ سے دل میں نفرت پیدا ہوئی تو بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو کر علیحدگی کا مطالبہ کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق مہر میں ملا ہوا باغ واپس لے کر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو لوٹا دیا اور ان کے درمیان علیحدگی کروا دی۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتْ النَّبِيَّ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اﷲِ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ وَلَکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اﷲِ: اقْبَلْ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ عالیہ میں آ کر کہنے لگی یا رسول اﷲ میں نہ ثابت بن قیس کے اخلاق سے ناراض ہوں اور نہ ان کے دین پر عیب لگاتی ہوں، مگر میں اسلام میں آ کر کفرانِ نعمت پسند نہیںکرتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کا باغ (جو حق مہر میں تم نے لیا تھا) واپس کرو گی؟ وہ بولیں جی ہاں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: باغ لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔
بخاري، الصحيح، 5: 2021، رقم: 4971، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
اگر میاں بیوی میں نباہ نہیں ہو رہا اور نفرت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ان کا اکٹھے رہنا ممکن نہیں تو اللہ تعالیٰ کی حدود قائم کرنے کے لیے ان کو علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے۔ یہ علیحدگی دو صورتوں میں ہو سکتی ہے: ایک یہ کہ شوہر طلاق دے اور دوسرا یہ کہ بیوی معاملہ عدالت میں لے جائے۔ اگر معاملہ عدالت میں آتا ہے تو جج یا قاضی کی پہلی ترجیح زوجین میں مصالحت ہونی چاہیے۔ اگر مصالحت نہیں ہوتی تو جج شوہر کو رضا کارانہ طور طلاق دینے کے لیے آمادہ کرے۔ اگر شوہر اس کے لیے تیار نہیں ہوتا تو بیوی کچھ لین دین کر کے شوہر کو طلاق کے لیے راضی کر لے (اسی کو خلع بھی کہا جاتا ہے)۔ اگر ان میں سے کوئی ترکیب بھی کارگر ثابت نہ ہو اور بیوی شرعی اعتبار سے قابلِ قبول وجوہات بیان کرے، جیسے: شوہر تشدد کرتا ہے، جسمانی و ذہنی اذِیّت میں مبتلا رکھتا ہے، نہ حقوق ادا کرتا ہے نہ طلاق دے کر گلوخلاصی کرتا ہے، نان و نفقہ نہیں دیتا، شوہر کسی مُوذِی مرض میں مبتلا ہے، نکاح کے وقت عورت کو دھوکہ دیا گیا ہے وغیرہ تو عدالت نکاح فسخ (ختم) کر دے گا۔
اگر شوہر خود طلاق دے رہا ہے تو وہ ہر صورت میں ایک، صرف ایک، بس ایک طلاق دے۔ دو یا تین دینے کا سوچے بھی نا، ذہن میں دو یا تین طلاق دینے کا خیال بھی نہ لائے۔ طلاق یا خلع کے بعد بیوی عدت کے ایام گزارے گی اور اس کے بعد جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔