جواب:
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ ﷲ علیہ نے بنی ہاشم کے بارے میں جو بیان کیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے:
عبد مناف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چوتھے اَبّ ہیں انہوں نے چار بیٹے چھوڑے: ہاشم، مطلب، نوفل اور عبد شمش پھر ان میں سے سوائے عبد المطلب کے باقی تین کی نسل ختم ہو گئی، عبد المطلب کے بارہ (12) بیٹے تھے ان میں سے جس کی بھی نسل مسلمان ہو اور غریب ہو اس کو زکوٰۃ دینی جائز ہے سوائے: عباس، حارث، اور ابو طالب کی اولاد کے، ابو طالب کی اولاد حضرات علی، جعفر اور عقیل رضی اللہ عنہما ہیں۔ ابوعصمہ رحمۃ اﷲ علیہ نے ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ سے رویت کی ہے کہ ہمارے زمانے میں بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز ہے کیونکہ ان پر یہ (زکوٰۃ، عشر، فطرانہ، فدیہ) جائز نہ ہونے کی وجہ خمس (مال غنیمت کا پانچواں حصہ جو ان کو ملتا) تھا جو کہ آج کل نہیں ملتا۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک بنی ہاشم کے امیر غریب بنی ہاشم کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں، امام ابو یوسف اس کے خلاف ہیں۔ صحیح تر قول یہ ہے کہ ہاشمی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں۔
ابن عابدین، رد المحتار، 2: 350، بیروت: دار الفکر
مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا عبد مناف کے بیٹے ہاشم سے چلنے والی نسل بنی ہاشم ہیں ان میں سے جو مسلمان ہو اور مستحق بھی ہو، زکوٰۃ لے سکتا ہے اور جن پر خمس سے حصہ ملنے کی وجہ سے زکوٰۃ جائز نہیں تھی وہ بھی جائز ہو گئی کیونکہ آج کے زمانے میں نہ اس دور کی طرح جنگیں رہیں نہ ہی آئے روز مال غنیمت کی آمدن رہی اس لئے آج کے دور میں غریب بنی ہاشم کو اگر ضرورت پڑے تو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ممانعت کی جو وجہ تھی وہی ختم ہو گئی۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فاطمی و غیر فاطمی اولاد یا ان کے علاوہ جس جس پر بھی خمس کی وجہ سے زکوٰۃ جائز نہیں تھی ان میں سے اگر کوئی غریب ہو اور اس کی مدد کا کوئی متبادل راستہ بھی نہ ہو تو اس کو زکوٰۃ، عشر اور صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔ لیکن احترام کی خاطر ان کو بتانے کی بجائے تحفۃً پیش کیا جائے تو بہتر ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔