جواب:
بعض معاشرتی مسائل قرآن و سنت اور آئمہ سلف نے پوری شرح و بسط سے بیان کردیئے ہیں مگر امت کی بدنصیبی کہ عوام و خواص الا ماشاء اللہ ان کے ثمرات سے مستفید نہیں ہوسکے۔ ان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مرد چونکہ عورت پر حاکم ہے اور صدیوں سے حاکم اور ظالم کا چولی دامن کا ساتھ ہے، لہٰذا عورت صدیوں سے مرد کے مظالم کا شکار ہے۔ اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی حرماں نصیبی شروع ہوجاتی ہے۔ قدیم جہالت اب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ انسانی معاشرہ میں براجمان ہے، اس کی پیدائش پر ناک بھنویں چڑھانا، جس کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَّهُوَ کَظِيْمٌo يَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓئِ مَا بُشِّرَ بِهِ ط اَيُمْسِکُهُ عَلَی هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّهُ فِی التُّرَابِ ط اَ لَا سَآءَ مَا يَحْکُمُوْنَo
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری سنائی جائے دن بھر اس کا چہرہ سیاہ رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے۔لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس خوشخبری کی بُرائی کے سبب ، کیا اسے ذلّت کے ساتھ رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے۔ ارے بہت ہی بُرا حکم لگاتے ہیں۔
النحل، 16: 58، 59
کا منظر اب بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ بیٹے کی پیدائش پر خوشی کے مظاہرے اور بچی کی پیدائش پر رنج و الم بلکہ تعزیت کے سے انداز ، اچھا اﷲ کی مرضی گویا ہوا تو بُرا ہے مگر اﷲ کی مرضی (نَعُوْذُ بِااﷲ) وہ یہی کچھ کرتا ہے۔ ابتداء سے انتہاء تک بچی سے امتیازی سلوک، بیاہ شادی اور تعلیم و تربیت میں نمایاں فرق، وراثت سے بیٹی، بہن، بیوی، ماں وغیرہ کی محرومی۔ الغرض ہر پہلو سے اس کی تحقیر و تذلیل، اس کا مقدر اور مرد کا حق سمجھا جاتا ہے۔ دیگر معاملات میں بھی اس بے زبان کی سننے والا کوئی نہیں۔ ہر سو ظلم کی آگ لگی ہوئی ہے جسے بجھا نے والا کوئی نہیں۔ مذہبی طبقات نے اس پر علم کے دروازے بند کررکھے ہیں۔ جاگیرداروں، نوابوں، زمینداروں اور پیروں نے بیٹیوں کو جائیداد سے محروم کرنے کے لئے مختلف شیطانی ہتھکنڈے اپنا رکھے ہیں۔ شادی نہیں ہونے دیتے کہ اس نے قرآن سے شادی کرلی ہے۔ اس نے والدین کی جائیداد میں سے اپنا حق بھائیوں کو بخش دیا ہے۔ مجبور و بے بس بچیوں کو یوں والدین کے ترکہ سے محروم کیا جاتا ہے اور یہ ظلم علماء و مشائخ کررہے ہیں۔ جاگیردار سرمایہ دار، زمیندار کررہے ہیں، الا ماشاء اللہ۔ ان ظالموں سے پوچھو! بیٹوں اور بھائیوں کی شادی قرآن سے کیوں نہیں؟ اپنی اور بیٹوں، بھائیوں کی شادیاں لڑکیوں سے اور بہنوں بیٹیوں کی شادی مردوں کے بجائے قرآن سے۔۔۔ ؟(لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ الَّا بِاﷲ) ظلم کر رہے ہیں ، کفر بک رہے ہیں اور اس کی نسبت شریعت کی طرف کرتے ذرہ نہیں شرماتے۔ اَسْتَغْفِرُاﷲ
اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیویوں پر ظلم کرتے۔نہ بیوی بناکر عزت سے ان کو بساتے، نہ طلاق دے کر ان کو قید نکاح سے آزاد کرتے۔ پوچھو ان کو اپنے ساتھ بساتے کیوں نہیں جواب دیتے ہم نے طلاق دے دی ہے پوچھو پھر ان کو دوسری جگہ پسند کی شادی کیوں نہیں کرنے دیتے جواب ہوتا ہم نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا۔ لہٰذا نکاح بحال رہا۔ عمر بھر یہی ظلم روا رکھتے۔ آج بعض مسلمان کہلانے والے ببانگ دہل کہتے ہیں، نہ رکھیں گے نہ چھوڑیں گے یہ عورت پر بدترین ظلم ہے۔ قرآن کریم نے اس کا خاتمہ کیا کہ طلاق کی حد مقرر کردی۔ اگر کوئی ایک یادو بار واضح الفاظ میں طلاق دے دے تو عدت کے اندر نیک نیتی سے یا تو رجوع کرلے اور آئندہ بیوی کو تنگ نہ کرے، بیوی بناکر پاس رکھے یا مدت گزرنے دے تاکہ نکاح ختم ہوجائے اور عورت اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرے۔اگر کسی نے تیسری طلاق دے دی تو اب رجوع نہیں کرسکتا جب تک وہ عورت کسی اور سے شادی و قربت نہ کرلے۔
اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌم بِاِحْسَانٍ ط وَلاَ يَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ شَيْئًا اِلآ اَنْ يَخَافَآ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِط فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهِ ط تِلْکَ حُدُوْدُ اﷲِ فَلاَ تَعْتَدُوْهَا ج وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُوْدَ اﷲِ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَo فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ط فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ اَنْ يَتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّـآ اَنْ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اﷲِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُوْنَo
یہ طلاق (رجعی) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ (اب رشتہء زوجیت برقرار رکھتے ہوئے) دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے، یہ اﷲ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اﷲ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں۔پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتہء زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لیے بیان فرماتا ہے۔
البقرة، 2: 229، 230
پھر ارشاد ہوا :
وَاِذَ اطَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِکُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْسَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّلَا تُمْسِکُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا ج وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ط وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اﷲِ هُزُوًا وَّاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اﷲِ عَلَيْکُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَةِ يَعِظُکُمْ بِهِ ط وَاتَّقُوا اﷲَ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اﷲَ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمٌo
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آ پہنچیں تو انہیں اچھے طریقے سے (اپنی زوجیّت میں) روک لو یا انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو، اور انہیں محض تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو اور جو کوئی ایسا کرے پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا، اور اﷲ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو، اور یاد کرو اﷲ کی اس نعمت کو جو تم پر (کی گئی) ہے اور اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے اور دانائی (کی باتوں) کو (جن کی اس نے تمہیں تعلیم دی ہے) وہ تمہیں (اس امر کی) نصیحت فرماتا ہے، اور اﷲ سے ڈرو، اور جان لو کہ بے شک اﷲ سب کچھ جاننے والا ہے۔
البقرة، 2: 231
جب عورت کو اس کے حقوق سے محروم کیا جائے۔ شوہر ظلم کرے نہ بیوی بناکر رکھے نہ طلاق دے پھر کوئی طریقہ تو ہو جو اس کو ظلم کی چکی میں پسنے سے بچائے وہ حکومت اور اس کی قائم کردہ عدلیہ ہے۔ چنانچہ مظلوم عورت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ عدالت کا فرض ہے کہ پوری تحقیق کے بعد اگر یہ ظلم ثابت ہوجائے اور خاوند عدل و انصاف کا راستہ اپنائے نہ عورت کو طلاق دے تو قاضی یعنی عدالت فوراً یا طلاق دلوائے یا تنسیخ نکاح کردے تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو۔ یہ اسلام ہے اور یہی عدل و انصاف ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَۃَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اﷲِ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ وَلَکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اﷲِ أقْبَلْ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً.
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی، یارسول اللہ! میں ثابت بن قیس کے دین یا اخلاق پر کوئی اعتراض نہیں کرتی نہ عیب لگاتی ہوں لیکن مجھے اسلام میں رہ کر کفران نعمت پسند نہیں۔ (یعنی خاوند پسند نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس سے جو باغ تم نے حق مہر میں لیا ہے وہ اسے واپس کردوگی؟ بولیں جی حضور، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنا باغ قبول کرو اور اسے ایک طلاق دے دو۔
دور جاہلیت میں عورت پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جاتے تھے جیسا کہ درج ذیل ہے :
کان الرجل في الجاهليۃ يطلق امرأته ثم يراجعها قبل أن تنقضی عدتها ولو طلقها ألف مرة کانت القدرة علی المراجعة ثابتة له فجاء ت امرأة اِلی عائشة فشکت أن زوجها يطلقها ويراجعها يضارها بذلک فذکرت عائشة ذلک لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فنزل قوله تعالی (اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰن).
دور جاہلیت میں خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کرلیتا، چاہے ہزار بار طلاق دیتا۔ اسے رجوع کرنے کا اختیار حاصل ہوتا۔ ایک عورت نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس شکایت کی کہ اس کا خاوند اسے طلاق دیتا اور عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرکے اسے ایذاء دیتا ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کردیا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (الطلاق مرتٰن: یہ طلاق جس کے بعد رجوع ہوسکتا ہے دوبار تک ہے)۔
الرازي، التفسير الکبير، 6: 82، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية
قرآن و سنت کی رو سے کوئی انسان دوسری کسی بھی مخلوق کو ایذاء دینے کا مُجاز نہیں۔ نہ مرد عورت کو، نہ عورت مرد کو، نہ رکھنانہ چھوڑنا ظلم ہے جس کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں۔ اسلام کیا دنیا کے کسی نظریہ و دھرم میں اس کی ہرگز اجازت نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا خاتمہ حکومت ہی کرسکتی ہے۔ لہٰذا قاضی یا عدالت کے پاس جیسے ہر مظلوم داد رسی کے لئے رجوع کرسکتا ہے۔ اسی طرح ایسی مظلومہ بھی عدالت کے ذریعہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا خاتمہ کرواسکتی ہے چونکہ عدالتی فیصلہ حکومتی فیصلہ ہے۔ جس پر عملدرآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بس عدالت کا یہ کام ہے کہ جو عورت داد رسی کے لئے اس کی طرف رجوع کرے یہ تمام حالات و کوائف کی چھان پھٹک کرے۔منصفانہ وغیر جانبدارانہ تحقیقات سے خاوند کا ظلم ثابت ہو، یا وہ بیوی کے حقوق پورے نہ کرے یا نہ کرسکے اور قاضی عادل کو اطمینان ہو کہ خاوند، بیوی کے حقوق پامال کررہا ہے، عدالت فوراً اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے میاں بیوی میں تنسیخ نکاح کردے۔ یہ عدالتی تنسیخ شرعاً جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ ظلم ختم ہو۔ یہ تنسیخ عدالت طلاق بائن ہوگی۔ نکاح فوراً ٹوٹ جائے گا۔
اگر خاوند نامرد ہو، بیوی بذریعہ عدالت اس سے آزادی کا مطالبہ کرے، حاکم (جج) اسے ایک سال کی مہلت دے گا۔ اگر سال میں قربت کے قابل ہوگیا تو نکاح برقرار رہے گا، ورنہ عدالت عورت کے مطالبہ پر تفریق کردے گی۔ یہی روایت ہے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم سے ہے۔ یہی دنیا بھر کے فقہائے کرام جیسے ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب امام شافعی اور ان کے اصحاب امام مالک اور ان کے اصحاب امام احمد اور ان کے اصحاب کا کا فتویٰ ہے۔
فإذا مضت المدة ولم يصل إليها تبين أن العجز بآفة أصلية ففات الإمساک بالمعروف ووجب عليه التسريح بالإحسان فإذا امتنع ، ناب القاضی منابه ففرق بينها ولابد من طلبها لأن التفريق حقها وتلک الفرقة تطليقة بائنة لأن الفعل أضيف إلی فعل الزوج فکأنه طلقها بنفسه... لأن المقصود وهو دفع الظلم عنها لا يحصل إلابها و لولم تکن بائنة تعود معلقة بالمراجعة ولها کمال مهرها إن کان خلابها.
جب سال بھر مدت گذر جائے اور مرد جماع کے قابل نہ ہو تو واضح ہوگیا کہ یہ عاجزی اصلی آفت کی وجہ سے ہے لہٰذا امساک بالمعروف، بھلائی کے ساتھ بیوی کو روک لینا۔ نہ رہا اب خاوند پر لازم ہے کہ اچھے طریقہ سے اسے آزاد کردے۔ جب خاوند اس پر آمادہ نہ ہو قاضی خود اس (خاوند) کا قائمقام ہوکر دونوں میں تفریق کردے چونکہ یہ بیوی کا حق ہے لہٰذا اس کا مطالبہ کرنا ضروری ہے اور یہ تفریق و تنسیخ طلاق بائن ہوگی۔گویا یہ طلاق خاوند نے خود دی ہے۔۔۔ کیونکہ اصل مقصد یعنی ظلم کا خاتمہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اگر یہ تفریق طلاق بائنہ نہ ہوئی تو رجوع کی صورت میں بیچاری پھر لٹکنے لگے گی۔ اگر خاوند نے اس سے خلوت کی ہے تو اسے مکمل حق مہر بھی ملے گا۔
مرغيناني، الهداية، 2: 26، المکتبة الإسلامية
امام ابنِ ھمام کا فتویٰ ہے کہ:
فاذا امتنع کان ظالما فناب القاضی عنه فيه فيضاف فعله إليه.
جب خاوند طلاق نہ دے تو ظالم ہے لہٰذا قاضی (جج) اس مسئلہ میں خود خاوند کا قائم مقام ہو کر تفریق کر دے اب قاضی کا فعل خاوند کی طرف منسوب ہوگا۔
ابن همام، ؎شرح فتح القدير، 4: 300، بيروت: دار الفکر بيروت
إن اختارت الفرقة أمر القاضی أن يطلقها طلقة بائنة فإن أبي فرق بينهما... والفرقة لطليقة بائنة... ولها المهر کاملا وعليها العدة بالاجماع إن کان الزوج قد خلابها وإن لم يخل بها فلا عدة عليها ولها نصف، المهرإن کان مسمی، المتعة إن لم يکن مسمّی.
اگر بیوی جدائی چاہتی ہے تو قاضی (عدالت) اس کے خاوند کو طلاق بائن دینے کا حکم دے۔ اگر انکار کرے تو قاضی دونوں میں تفریق کردے یہ فرقت طلاق بائن ہوگی۔ اس عورت کو پورا مہر ملے گا اور بالاتفاق اس پر عدت لازم ہے اگر خاوند نے اس سے خلوت صحیحہ کی ہے اور اگر خلوت صحیحہ و قربت نہیں کی تو عورت پر عدت نہیں اور اگر مہر مقرر تھا تو اس کا نصف دینا ہوگا اور مہر مقرر نہ تھا تو حسب توفیق کپڑوں کا جوڑا اور تحائف وغیرہ۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 524، دار الفکر
یہی حکم ہے نامرد کا۔ مقطوع الذکر کا، خصی کا، قصیر الذکر کا، ان سب کی بیویوں کو اگر وہ عدالت میں اپنا کیس پیش کریں اور عدالت کو سچا ہونے کا یقین ہوجائے تو ایسے نالائق شوہروں سے بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کا حق ہے اور یہ تنسیخ طلاق بائن ہوگی۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 524، دار الفکر
ان تمام صورتوں کے بارے میں علامہ شامی فرماتے ہیں:
فالضرر الحاصل للمرأة به مساولضرر المجبوب فلها طلب التفريق.
اس سے عورت کو پہنچنے والی تکلیف مجبوب (مقطوع الذکر) کی تکلیف کے برابر ہے اس لئے عورت کو بذریعہ عدالت تفریق کا حق ہے۔
ابن عابدين شامي، ردالمحتار، 3: 495، بيروت: دار الفکر للطباعة والنشر
اگر خاوند جو بیوی کے حقوق پورے نہیں کرتا یا نہیں کرسکتا یا اس پر ظلم کرتا ہے اگر طلاق دینے سے انکار کردے حالانکہ امساک بالمعروف اچھے طریقہ سے روک لینے سے جب عاجز ہو گیا تو اس پر لازم تھا کہ تسریح بالاحسان (بھلائی سے آزاد کر دیتا)۔ جب اچھی طرح سے اسے آزاد نہیں کرتا تو خاوند ظالم ہے پس حاکم اس کا نائب بن کر تفریق کردے۔ یہ تفریق طلاق بائن ہوگی۔ اور خاوند پر مکمل حق مہر بھی لازم ہوگا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عورت خود اپنے آپ کو اس کے چنگل سے آزاد کرسکتی ہے۔ عدالتی فیصلہ کی بھی ضرورت نہیں جیسے خیار عتق کہا گیا یہی بات صحیح تر ہے۔
ابن عابدين شامي، ردالمحتار، 3: 498
علامہ ابن نجیم حنفی فرماتے ہیں:
خاوند مقطوع الذکر ہے تو فوراً عدالت تنسیخ کرے یعنی جس کا آلہ یا خصیئے یا دونوں کٹے ہوں اسے کوئی مہلت نہ دی جائے اور عدالت فوری تفریق کر دے کہ عورت کا حق پامال ہورہا ہے۔ مہلت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس حکم میں عنین (نامرد) جس کا آلہ بہت چھوٹا ہو شامل ہیں۔
ابن نجيم، البحر الرائق، 4: 135، بيروت: دار المعرفة
اسلام کسی کو کسی پر ظلم کرنے اور اس کے حقوق پامال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اگر بیوی حقوق زوجیت سے خاوند کو محروم کرے۔ تو خاوند کے پاس حق طلاق ہے۔ اور دیگر حاکمانہ حقوق ہیں۔ جنہیں بروئے کار لاکر وہ اپنے حقوق وصول کرسکتا ہے۔ بصورت دیگر حق طلاق استعمال کرکے اس سے جان چھڑا سکتا ہے۔ اور اگر خاوند بیوی کے حقوق پامال کرے نان نفقہ نہ دے، حقوق زوجیت سے اسے محروم کرے۔ نہ امساک بمعروف کرے اور نہ تسریح باحسان پر عمل کرے۔ ساری عمر نہ بیوی بنا کر رکھنے نہ آزاد کرے تو بیوی پر ظلم ہوا قرآن کریم نہ کسی کو ظالم بننے کی اجازت دیتا ہے۔ نہ مظلوم لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ نہ تم ظالم بنو نہ تم پر ظلم ہو۔
اس لیے عورت ہو یا مرد دونوں کے حقوق و فرائض ہیں ایک فریق کے حقوق دوسرے فریق کے فرائض میں شامل ہیں مرد کے حقوق عورت پورے کرے اور عورت کے مرد پھر ہی زندگی پر سکون گزر سکتی ہے۔
مسئلہ مسؤلہ میں اگر شوہر بیوی کے حقوق پورے کرنے سے قاصر ہے اور طلاق بھی نہیں دے رہا، تو درج بالا دلائل کی روشنی میں عورت کو حق حاصل ہے کہ بذریعہ عدالت تنسیخِ نکاح کروا سکتی ہے۔ عورت عدالت میں دعویٰ دائر کرے گی اور اپنے دعوے کو ثابت کردے تو عدالت تنسیخِ نکاح کروا دے گی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔