Fatwa Online

ظہار کیا ہے؟

سوال نمبر:4057

السلام علیکم! ظہار کیا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: صبغت اللہ خان

  • مقام: پشاور
  • تاریخ اشاعت: 25 نومبر 2016ء

موضوع:ظہار کے احکام

جواب:

شرعی اصطلاح میں ظہار کے معنیٰ ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو یوں کہہ دے: ’توں مجھ پر میری ماں یا بہن (یا کوئی اور محرم خاتون) جیسی ہے‘۔ فتاویٰ ہندیہ میں ظہار کا مفہوم ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:

الظهار هو تشبيه الزوجة أو جزء منها شائع أو معبربه عن الکل بما لا يحل النظر إليه من المحرمة علی التأبيد ولو برضاع أو صهرية... سواء کانت الزوجة حرة أو أمة أو مکاتبة أو مدبرة أوأم ولد أو کتابية.

ظہار سے مراد ہے اپنی زوجہ کسی عضو کو جو شائع ہے یا جسے بول کر کل بدن مراد لیا جاتا ہے، محرمات ابدیہ (جن سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے) کے ایسے عضو سے تشبیہ دینا جس کو دیکھنا حلال نہیں ہے۔ اس میں وہ حرمت والے رشتے بھی شامل ہیں جو دودھ شریک ہوں، صہر (سسرالی) یعنی نکاح یا شہوت سے مس کرنے سے پیدا کی ہوں۔۔۔ چاہے زوجہ آزاد ہو یا باندی، مکاتبہ یا مدبرہ ام ولد ہو یا پھر کتابیہ۔

الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 505، بيروت: دار الفکر

ظہار کا لفظ ظہر سے نکلا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے پشت یا پیٹھ۔ جب کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ توں میرے لیے میری ماں کی پشت کی مانند ہے یا کہے کہ اگر میں تیرے پاس آؤں تو ایسے ہی ہے جیسے اپنی ماں یا بہن کے پاس جاؤں، یہ ظہار ہوگا۔

أنت علي کبطن أمي أو فخذ أمي أو فرج أمي ولأن معنی الظهار تشبيه الحلال.

(شوہر کا اپنی بیوی سے یہ کہنا) کہ تو مجھ پر میری ماں کے پیٹ کی طرح ہے یا تو میرے لئے میری ماں کی ران کی طرح ہے یا تو میرے لئے میری ماں کی شرمگاہ کی طرح ہے کیونکہ ظہار کا معنی حلال کو حرام سے تشبیہ دینا ہے۔

  1. علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 3: 229، بيروت: دار الکتاب العربي
  2. مرغيناني، الهداية شرح البداية، 2: 18، بيروت: المکتبة الإسلامية

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَتَمَآسَّا ط ذٰلِکُمْ تُوْ عَظُوْنَ بِهِ ط وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌo

اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں پھر جو کہاہے اس سے پلٹنا چاہیں تو ایک گردن (غلام یا باندی) کا آزاد کرنا لازم ہے قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں، تمہیں اس بات کی نصیحت کی جاتی ہے، اور اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہو۔

المجادله، 58: 3

ظہار سے نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ عورت بدستور بیوی رہتی ہے، البتہ وہ وقتی طور پر شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے، کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کر سکتا ہے۔

ظہار کرنے والے شخص کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس شوہر کا ظہار معتبر ہے جو عاقل و بالغ ہو اور بحالت ہوش و حواس ظہار کے الفاظ زبان سے ادا کرے۔ بچے اور مجنون کا ظہار معتبر نہیں ہے۔ نیز ایسے شخص کا ظہار بھی معتبر نہیں جو ان الفاظ کو ادا کرتے وقت اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو، مثلاً سوتے میں بڑبڑائے، یا کسی نوعیت کی بیہوشی میں مبتلا ہو گیا ہو۔

ظہار کے حکم میں وہ تمام عورتیں داخل ہیں جو نسب، رضاعت، یا ازدواجی رشتہ کی بنا پر آدمی کے لیے ہمیشہ حرام ہیں، مگر وقتی طور پر جو عورتیں حرام ہوں اور کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں وہ اس میں داخل نہیں ہیں۔ جیسے بیوی کی بہن، اس کی خالہ، اس کی پھوپھی، یا غیرعورت جو آدمی کے نکاح میں نہ ہو۔ ابدی محرمات میں سے کسی عورت کے کسی ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دینا جس پر نظر ڈالنا آدمی کے لیے حلال نہ ہو، ظہار ہو گا۔ البتہ بیوی کے ہاتھ، پاؤں، سر، بال، دانت وغیرہ کو محرم عورت سے، یا بیوی کو اس کے سر، ہاتھ، پاؤں جیسے اجزائے جسم سے تشبیہ دینا ظہار نہ ہو گا کیونکہ ماں بہن کے ان اعضاء پر نگاہ ڈالنا حرام نہیں ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ تیرا ہاتھ میری ماں کے ہاتھ جیسا ہے، یا تیرا پاؤں میری ماں کے پاؤں جیسا ہے، ظہار نہیں ہے۔

ظہار کے تین احکام ہیں:

  1. کفارہ کی ادائیگی سے قبل بیوی سے جماع کا حرام ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَتَمَآسَّا ط ذٰلِکُمْ تُوْ عَظُوْنَ بِهِ ط وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌo

اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں پھر جو کہاہے اس سے پلٹنا چاہیں تو ایک گردن (غلام یا باندی) کا آزاد کرنا لازم ہے قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں، تمہیں اس بات کی نصیحت کی جاتی ہے، اور اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہو۔

المجادلة، 58: 3

  1. کفارہ کی ادائیگی سے قبل بیوی سے جنسی منافع کا حرام ہونا۔ کفارہ ادا کرنے سے قبل (جنسی) فائدہ اٹھانا مثلاً اس کے جسم سے اپنے جسم کو ملانا، اس کا بوسہ لینا، اس کو شہوت سے چھونا، شہوت سے اس کی شرمگاہ کو دیکھنا، یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ’مِنْ قَبْلِ اَنْ يَتَمَاسَّا‘ فرما کر کفارے کی ادائیگی کو مس کرنے سے قبل ضروری قرار دیا ہے اور مس کا اطلاق سب سے کم جس چیز پر ہوتا ہے وہ ہاتھ سے چھونا ہے۔ مس کا لفظ دونوں معنی جماع اور ہاتھ سے چھونے کو شامل ہے۔
  2. بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شوہر سے جماع کرنے کا مطالبہ کرے اور جب بیوی مطالبہ کرے تو حاکم پر لازم ہے کہ وہ شوہر کو مجبور کرے یہاں تک وہ کفارہ ادا کرے اور بیوی سے جماع کرے کیونکہ خاوند نے بذریعہ ظہار جماع کو حرام کر کے بیوی کو نقصان پہنچایا ہے ملک نکاح کے باوجود بیوی کو حق جماع سے روک دیا گیا تھا۔

قرآنِ عزیز میں اللہ تعالیٰ نے ظہار کا کفارہ تین انواع کا بیان کیا ہے، ان میں سے کسی ایک نوع کی ادائیگی سے کفارہ ادا ہو جائے گا۔ لیکن ان کی ترتیب ارشادِ باری تعالیٰ کے مطابق ہوگی۔ ارشاد ہے:

وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَتَمَآسَّا ط ذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِهِ ط وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌo فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَتَمَآسَّا ج فَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّيْنَ مِسْکِيْنًا ط ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهِ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اﷲِ ط وَلِلْکٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌo

اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں پھر جو کہاہے اس سے پلٹنا چاہیں تو ایک گردن (غلام یا باندی) کا آزاد کرنا لازم ہے قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں، تمہیں اس بات کی نصیحت کی جاتی ہے، اور اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہو۔ پھر جسے (غلام یا باندی) میسّر نہ ہو تو دو ماہ متواتر روزے رکھنا (لازم ہے) قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں، پھر جو شخص اِس کی (بھی) طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (لازم ہے)، یہ اِس لیے کہ تم اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھو۔ اور یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں، اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

المجادلة، 58: 3، 4

قرآن مجید نے ترتیب کے ساتھ تین چیزوں کا کفارہ ظہار کے زمرے میں ذکر کیا ان میں سے جس کی بھی قدرت رکھے وہ ادا کرے۔

  1. غلام آزاد کرنا
  2. 60 ساٹھ دن کے لگاتار روزے رکھنا
  3. 60 ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 17 April, 2024 01:03:38 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4057/