جواب:
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اخوت، مساوات، عزت نفس، خدا ترسی، امن و عافیت، فلاح و نجات، انسانیت کی بلندی اور اقدار انسانی کی معراج و رفعت ہیں اور ان سب کا سر چشمہ اور منبع شرع حضور پُرنور، رحمتِ عالم، نورِ مجسم، شفیعِ معظم، رسالتمآب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور آئینِ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم، دین اسلام ہے۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی زندہ و جاوید فکر میں سے ایک ان کا نظریہ تصوف ہے۔
اسلامی تصوف کے دو پہلو ہیں، ایک نظری اور ایک عملی۔ تصوف عملی درحقیقت سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی انتہائی خلوص کے ساتھ پیروی کا نام ہے اور تصوف نظری دراصل نہ صرف توحید پر صدق دل سے ایمان لانے، بلکہ علم الیقین کے ساتھ ساتھ عین الیقین اور حق الیقین بھی حاصل کرنے کی صورت ہے۔ حضرت ابوسعید ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ نے جو تصوف کی تعریف میں کہا تھا:’’ تصوف یکسو نگر یستن ویکساں زیستن است‘‘ تو انہی دو پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ (حضرت مخدوم علی ہجویری اور تصوف، رانا غلام سرور)
گر ارض و سما کی محفل میں ’’لَوْلَاکَ لَمَا‘‘ کا شور نہ
ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں، یہ نور نہ ہو سیاروں میں
عملی تصوف ایک لحاظ سے حضور پر نور شافع یوم النشور، فخر دو عالم، نور مجسم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے ظاہری پہلو یعنی نبوت سے متعلق ہے اور نظری تصوف آپ کی نبوت اقدس کے معنوی پہلو یعنی ولایت سے وابستہ ہے۔ دونوں ہی حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی ذات والا صفات کے نور اقدس سے عبارت ہیں۔ تصوف کا ایک رخ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے اس رحمۃ اللعالمین ختم المرسلین صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے نقش قدم سے وابستہ ہے جسے دشمن بھی صادق و امین مانتے تھے اور قرآن مجید فرقان حمید جس کے اسوہ حسنہ کی یوں گواہی دیتا ہے:
’’وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ‘‘
اور تصوف کا دوسرا رخ غار حرا ’’لی مع اللہ‘‘ اور ’’قاب قوسین‘‘ کا عکس ہے جس کی حقیقت کا آئینہ حقیقت محمدیہ ’’کنت کنزا مخفیا‘‘ اور ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ سے ضیاء حاصل کرتا ہے۔ تصوف عملی نے اخلاص فی العمل سے حقیقی پاکیزگی یعنی نفس قالب اور روح کا سامان پیدا کیا اور تصوف نظری نے اہل حق کے قلوب میں عشق حق اور عشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے چراغ روشن کئے۔ یہ چراغ ’’يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ‘‘ اور’’قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ‘‘ کی کرنوں سے منور ہیں۔ حقیقت حال تو یہ ہے کہ:
ہر جزو کائنات کو ہے تیری احتیاج
ہوتا نہیں کسی کا گزارا تیرے بغیر
ارشاد ربانی ہے:
وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًاO
(الفرقان، 25 : 63)
’’خاص بزرگان الہٰی وہ ہیں جو زمین پر جھک کر چلتے ہیں اور جب جاہل انہیں چھیڑیں تو وہ بجائے جواب کے ان کو کہہ دیتے ہیں کہ اچھا خوش رہو‘‘۔
اور حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا فرمان اقدس ہے:
سمع صوت اهل التصوف فلا يومن علی دعائهم کتب عندالله من الغافلين.
’’جس نے اہل تصوف کی آواز سن کر ان کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ اللہ جل مجدہ کے نزدیک غافلوں میں لکھا گیا‘‘۔ (حضرت مخدوم علی ہجویری اور تصوف، رانا غلام سرور)
حقیقت حال یہ ہے کہ تصوف مذہب کی روح ہے۔ شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمۃ اللہ علیہ اسی سلسلے میں فرماتے ہیں:۔
التصوف هو علم تعرف به احوال تزکيه النفوس وتصفية الاخلاق وتعمير الظاهر والباطن لنيل السعادة الابدية موضوعه التزکية والتصفية والتعمير وغايته نيل السعادة الابدية.
’’یعنی تصوف وہ علم ہے جس سے تزکیہ نفوس، تصفیۃ الاخلاق، تعمیر ظاہر و باطن کے احوال کا علم ہوتا ہے تاکہ سعادت ابدی حاصل کی جاسکے۔ اس کا موضوع بھی تزکیہ، تصفیہ اور تعمیر ظاہرو باطن ہے اور اس کی غایت و مقصد سعادت ابدی حاصل کرنا ہے‘‘۔ (الرسالہ القشیریہ، ابوالقاسم القشیری)
اسی لئے بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
’’شریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے لہذا تصوف اصل الاصیل پاکیزہ ترین تعبیر ہے‘‘۔
اک شرع مسلمانی اک جذب مسلمانی
ہے جذب مسلمانی سر فلک الافلاک
’’ذکر اقبال رحمۃ اللہ علیہ‘‘ مولفہ عبدالمجید سالک سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نسبت بیعت کے قائل تھے اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت تھے۔ حضرت پیر جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نقشبندی علی پوری نے مئی 1935ء میں فرمایا:
’’اقبال نے راز داری کے طور پر مجھے کہا تھا کہ میں اپنے والد مرحوم سے بیعت ہوں۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے والد کے پاس ایک مجذوب صفت درویش آیا کرتے تھے اور وہ انہی سے بیعت تھے ان کا سلسلہ قادریہ تھا‘‘۔
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو سلسلہ قادریہ سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ جس کا اظہار کئی مرتبہ فرمایا۔
’’اقبال نامہ‘‘حصہ اول میں سید سلیمان ندوی سے یوں رطب اللسان ہیں:
’’خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی نور اللہ مرقدہ کی میرے دل میں بہت عزت ہے مگر افسوس ہے کہ آج یہ سلسلہ بھی عجمیت کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ یہی حال سلسلہ عالیہ قادریہ کا ہے جس میں میں خود بیعت رکھتا ہوں۔ حالانکہ حضرت شیخ سید عبدالقادر محی الدین رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود اسلامی تصوف کو عجمیت سے پاک کرنا تھا‘‘۔
یہ خط عروس البلاد لاہور، داتا کی نگری سے 13 نومبر 1917ء کو تحریر کیا تھا‘‘۔ (اقبال نامہ، شیخ عطاء اللہ، مکتوب نمبر 35)
جبکہ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی تالیف ’’ زندہ رود حیات اقبال کا تشکیلی دور‘‘ میں اس طرح فرماتے ہیں:
’’معلوم ہوتا ہے کہ شیخ نور محمد، سلطان العارفین حضرت قاضی سلطان محمود رحمۃ اللہ علیہ اعوان شریف کے مرید تھے جو سلسلہ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتے تھے‘‘۔
اسی بناء پر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی بچپن سے سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ جہاں اولیاء عظام اور صوفیاء کرام سے بے حد عقیدت و محبت رکھتے تھے وہاں آپ کے دل میں تحفظ و تکمیل شعائر اسلام کا بے پناہ جذبہ موجزن تھا۔
اس سلسلے میں ہفتہ وار ’’اخبار کشمیری، 14 جنوری 1913ء میں بشیر احمد ڈار‘‘ اور ’’اقبال ریویو، 1984ء‘‘ سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اگر مذہبی پہلو سے اسلامی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ قربانیوں کا ایک عظیم الشان سلسلہ معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً نماز ہی کو لو، وہ بھی قربانی ہے۔ خدا نے صبح کی نماز کا وقت مقرر کیا کہ جب انسان نہایت مزے کی نیند میں ہوتا ہے اور جب بستر سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا، خدا کے نیک بندے اپنے مولیٰ و آقا کی رضا کے لئے خواب راحت کو قربان کر دیتے ہیں اور نماز کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ پھر نماز ظہر کا وہ وقت مقرر کیا جب انسان اپنی کاروبای زندگی کے انتہائی کمال کو پہنچا ہوا ہوتا ہے اور اپنے کام میں انتہائی مصروف ہوتا ہے۔ عصر کا وقت وہ مقرر کیا جب دماغ آرام کا خواست گار ہوتا ہے اور تمام اعضاء محنت مزدوری کی تھکاوٹ کی وجہ سے آسائش کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ پھر شام کو نماز مقرر کردی جب کہ انسان کاروبار سے فارغ ہوکر بال بچوں میں آخر بیٹھتا ہے اور ان سے اپنا دل خوش کرنا چاہتا ہے۔ عشاء کی نماز کا وقت وہ مقرر کیا جبکہ بے اختیار سونے کو جی چاہتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے دن میں پانچ مرتبہ مسلمانوں کا آزمایا ہے کہ وہ میری راہ میں اپنا وقت اور اپنا آرام قربان کرسکتے ہیں یا نہیں‘‘۔
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا 31 اکتوبر 1916ء کا ایک خط ملاحظہ ہو:
’’لاہور کے حالات بدستور ہیں۔ سردی آرہی ہے۔ صبح چار بجے کبھی تین بجے اٹھتا ہوں پھر اس کے بعد نہیں سوتا سوائے اس کے کہ مصلے پر کبھی اونگھ جاؤں‘‘۔ (نقش اقبال، سید عبدالواحد)
عجب نہیں کہ مسلمان کو پھر عطا کر دیں
شکوہ سنجر و فقر جنید رحمۃ اللہ علیہ و بسطامی (رح)
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنید (رح) و بایزید (رح) ترا جمال بے نقاب
جاوید نامہ میں فرماتے ہیں:
پاک مرداں چوں فضیل (رح) و بوسعید (رح)
عارفاں مثل جنید (رح) و بایزید (رح)
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف ایک فلاسفر تھے بلکہ خوش نوا شاعر، مصلح ملت، مفکر اسلام، مبصر و ناقد اور عظیم المرتبت صوفی باصفا تھے۔ ان میں بصیرت و بصارت اور فراست و دانش بدرجہ اتم تھی۔ فلاسفر صحرائے حیرت میں تعقل و تفکر میں گم رہتا ہے اور اسے تحیر و درماندگی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا جبکہ عشق حقیقی کی وجہ سے بامراد ہوتا ہے اور نتیجتاً تجلی رب ذوالجلال کی ذات اقدس میں گم ہوکر ذکر حبیب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے وصل حبیب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔
کافر ہندی ہوں میں، دیکھ میرا ذوق و شوق
لب پہ درود و سلام دل میں درود و سلام
ہر دو بمنزلے رواں ہر دو امیر کارواں
عقل بحیلہ مے برد، عشق برد کشاں کشاں
شاعر مشرق رحمۃ اللہ علیہ اپنے ابتدائی دور کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں:
’’چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان (حضرت ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’فتوحات مکیہ‘‘ اور ’’فصوص الحکم‘‘) کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک دونوں کتابوں کا درس ہمارے گھر میں ہوتا رہا۔ گو بچپن میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی تاہم درس میں ہر روز شریک ہوتا تھا‘‘۔ (انوار اقبال : بشیر احمد ڈار)
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت میں تصوف کا رنگ بدرجہ اتم تھا۔ لندن میں بھی حصول تعلیم کے دوران آپ نے شمع تصوف کو ہر طرح سے فروزاں رکھا۔ مراقبات اور تہجد کے نوافل آپ کی زندگی کا معمول تھا۔
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
دراصل صوفی ہی حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ہمدل و ہمزبان ہوکر چلتے ہیں۔
بیاتا کار ایں امت بسازیم
قمار زندگی مردانہ بازیم
چناں نالیم اندر مسجد شہر
کہ دل در سینہ مُلّا گدا زیم
فقر بخشی! باشکوہ خسرو پرویز بخش
یا عطا فرما خرد یا فطرت روح الامین
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ جو عاشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم، دانائے راز، پہاڑوں سے بلند حوصلہ رکھنے والی ہستی، کامل و اکمل پیر رومی رحمۃ اللہ علیہ سے اس حد تک متاثر تھے کہ انہیں پیرو مرشد تسلیم کیا اور ان سے بے حد فیض حاصل کیا کیونکہ موصوف ممدوح نے قرآنی تعلیمات کو ایک مخصوص انداز میں مثنوی میں بیان کیا ہے جس کے وہ اپنے کلام میں بھی معترف ہیں:
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد
حضرت پیر رومی نور اللہ مرقدہ نے راہ طریقت میں مرشد و ہادی کی اہمیت اس طرح فرمائی ہے:
پیر راہ بگزین کہ بے پیر ایں سفر
ہست بس پر آفت و خوف و خطر
اسی لئے شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نور اللہ مرقدہ نے ان کی اس طرح تقلید کی:
کیمیا پیدا کن از مشت گلے
بوسہ زن بر آستان کاملے
حقیقت حال یہ ہے کہ اسلامی معاشرت کا ہمہ جہتی محورو مرکز عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہے جو مسلمان کی زندگی کا مقصود و منتہا اور اول و آخر ہے۔
بمصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
اولیاء کی خدمت میں نذرانۂ اقبال
٭ اعجاز الحق قدوسی، ’’اقبال کے محبوب صوفیاء‘‘ کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے حضور، دانائے راز حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ آپ کی روحانی رفعت و عظمت اور دینی خدمات کے معترف ہوتے ہوئے اس طرح اسرار و رموز میں درج ذیل وجد آفرین اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں:
سید ہجویر مخدوم امم
مرقد اوپیر سنجر را حرم
عہد فاروق از جمالش تازہ شد
حق زحرف او از بلند آوازہ شد
پاسبان عزت ام الکتاب
از نکاہش خانۂ باطل خراب
خاک پنجاب از دم او زندہ گشت
صبح ما از مہر او تابندہ گشت
٭ اسی طرح ’’بانگ درا‘‘ میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جنہیں ’’پیر سنجر‘‘ کہا جاتا ہے سے عقیدت و محبت کا اظہار اس طرح فرمایا ہے۔
دل بے تاب جا پہنچا دیار پیر سنجر میں
میسر ہے جہاں درمانِ دردِ ناشکیبائی
حقیقت حال یہ ہے جسے حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس طرح فرماتے ہیں:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
٭ اسی طرح حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الہٰی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بانگِ درا میں اس طرح نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں:
فرشتے پڑھتے ہیں جس کو، وہ نام ہے تیرا
بڑی جناب تیری، فیض عام ہے تیرا
تیری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہوجائے
یہ التجائے مسافر قبول ہوجائے
٭ ’’زبور عجم‘‘ میں حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ کو مولانا روم اور حضرت شمس تبریز رحمہما اللہ کا رمز شناس فرماتے ہیں:
مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگر نمی بینی
برہمن زادہ، رمز آشنائے روم و تبریز ست
اسی طرح ایک اور جگہ گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
نہ اٹھا پھر کوئی رومی (رح) عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
عطار رحمۃ اللہ علیہ ہو، رومی رحمۃ اللہ علیہ ہو، رازی رحمۃ اللہ علیہ ہو، غزالی رحمۃ اللہ علیہ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
٭ اسی طرح شیخ فخرالدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت جامی کی خدمت اقدس میں ارمغان حجاز اس طرح نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں:
کہے شعر عراقی رابخوانم
کہے جامی زند آلش بجانم
ندانم گرچہ آہنگ عرب را
شریک نغمہائے سار بانم
٭ حضرت بو علی قلندر رحمۃ اللہ علیہ پانی پتی کے حضور اسرار و رموز میں اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
باتو مگویم حدیث بو علی
در سواد ہند نام اوجلی
آن نوا بسیر ای گلزار کہن
گفت باما از گل رعنا سخن
خطہ ایں جنت آتش نژاد
از ہوای دامنش مینو سواد
حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے بارے بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:
رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمہ خسرو (رح)
٭ خواجہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بالِ جبریل میں اظہار عقیدت اس طرح پیش کیا:
محو اظہار تمنائے دل ناکام ہوں
لاج رکھ لینا، تیرے ’’اقبال‘‘ کا ہمنام ہوں
٭ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:
حاضر ہوا میں شیخ مجدد (رح) کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
٭ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے اسرار و رموز میں فرمایا:
تربتش ایمان خاک شہر ما
مشعل نور ہدایت مہر ما
٭ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اسرار و رموز میں حضرت سید احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
شیخ احمد (رح) سید گردوں جناب
کاسب نور از ضمیرش آفتاب
گل کہ می پوشد مزار پاک او
لا الہ گویاں دمد از خاک او
تاریخ تصوف کی مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اہل تصوف حصول فیوض و برکات کے لئے اولیائے کاملین کے مزارات مقدسہ پر کسب فیض کے لئے حاضر ہوتے رہے۔ جس طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سید علی مخدوم ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر چلہ کشی کی۔
شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نور اللہ مرقدہ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے یورپ جانے سے قبل حضرت محبوب الہٰی نظام الدین اولیاء زری زر بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضری کا شرف حاصل کیا اور کہا:
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
فلک نشیں صفت مہر ہوں زمانے میں
تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو
٭ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار گوہر بار پر متعدد بار حاضری دی اور پروفیسر عبدالقادر کے بقول حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خود انہیں فرمایا کہ ’’حضرت قاضی سلطان محمود کے ارشاد عالیہ کے مطابق وہ دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہٰی نور اللہ مرقدہ کے مزار پر انوار جوکہ مرجع خلائق ہے پر حاضر ہوئے اور وہاں پر عالم رویاء میں اشارہ ہوا کہ تمہارا فیض حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ہے۔ چنانچہ اس اشارہ پر عمل کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار عالیہ پر حاضر ہوکر فیض یاب ہوئے۔
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، عارف کامل حضرت مولانا محمد ہاشم جان سرہندی سے اس طرح مخاطب ہوئے: ’’اس روحانی تجربے (مزار پر انوار حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ پر مراقب ہونے) کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ مزارات اولیاء فیضان سے خالی نہیں۔
مولانا عبدالمجید سالک نے ’’ذکر اقبال‘‘ اور ’’سرگذشت‘‘ میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی عقیدت کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان کے اولیاء کرام میں سے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ سے بے انتہا عقیدت تھی۔ 1933ء میں جون کے مہینے میں انہیں خیال آیا کہ سرہند شریف کی زیارت کرنی چاہئے۔ چنانچہ انتہا درجے کے آرام طلب ہونے کے باوجود وہ شدید گرمی میں سرہند شریف گئے اور واپس آ کر یہ نظم لکھی جو ’’بال جبریل‘‘ میں موجود ہے۔
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمئی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
اور پھر آخر میں کس حسرت سے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ سے ملتجی ہیں:
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی!
حقیقت میں صوفی وہ ہے جس کے ایک ہاتھ میں قرآن مجید اور دوسرے ہاتھ میں سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہو۔ نیز صوفی وہ بھی ہے جس کی گفتار و کردار میں فرق نہ ہو اور جو اخلاق کی تہذیب کا کام کرے۔ صوفیائے کرام رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل دس مقامات کا انتخاب کرلیا ہے جو فقر کے لئے لازم و ملزوم ہیں:
حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے درج بالا اقوال پر حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ من و عن پورے اترے ہیں۔ (کشف المحجوب)
حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے:
ان الصفاء صفة الصديق ان اردت صوفيا علی التحقيق. (ايضاً)
’’بے شک صفا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صفت ہے، اگر تو کامل و اکمل صوفی بننے کا ارادہ رکھتا ہے تو جس راستے کو انہوں نے اپنایا تو بھی اسے اپناکر کاملین و اکملین کے گروہ میں شمولیت اختیار کرلے‘‘۔
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ خود تصوف کے رنگ میں ڈھل کر ایک عظیم صوفی باصفا ہوچکے تھے۔ اسی لئے ان کی عمیق نگاہوں نے دیکھا کہ تصوف رسم و رواج کا نام بن چکا اور حقیقی روح ختم ہوچکی ہے۔ اسی لئے انہوں نے فرمایا:
فقر را ذوق عریانی نہ ماند
آن جلال اندر مسلمانی نہ ماند
امت مسلمہ کو فقیر کی حقیقت سے آشنا کرتے ہوئے کہا:
بس آں قعرے کہ راند راہ را
بیند از خودی اللہ را
اندروں خویش جوید لا الہ
ورنہ از شمشیر گوید لا الہ
اسی طرح ایک اور مقام پر فقر کے بارے میں فرمایا:
چیست فقر اے بندگان آب و گل
یک نگاہ راہ بیں یک زندہ دل
باسلاطین در فقر مرد فقیر
از شکوہ بوریا لرزہ سریر
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے بہت ہی متاثر تھے اسی لئے اپنی کتاب ارمغانِ حجاز اور بال جبریل میں ان کے متعلق فرماتے ہیں:
دگر بسد رسہ ہائے حرم نمی بینم
دل جنید (رح) و نگاہ غزالی (رح) و رازی (رح)
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی رحمۃ اللہ علیہ و ارد شیری
’’ارمغان حجاز‘‘ میں شاعر مشرق رحمۃ اللہ علیہ نے عزت بخاری کا یہ شعر بالخصوص نقل فرمایا ہے:
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید (رح) و بایزید (رح) ایں جا
حقیقت حال یہ ہے کہ آج تصوف بے حقیقت نام ہو کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل یہ حقیقت ہی حقیقت تھی، جس کا کوئی نام نہ تھا۔ یعنی عہد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین رحمہم اللہ میں تصوف نام کا نہ تھا اس کا معنی مفہوم ہر شخص میں پایا جاتا تھا۔ اِس دور میں نام موجود ہے مگر معنی عنقا ہے۔ اُس وقت افعال و اعمال انتہائی پسندیدہ تھے مگر کسی قسم کا دعویٰ یا نام موجود نہ تھا۔ اِس زمانے میں دعویٰ اور نام کی بڑی شہرت ہے مگر اعمال و افعال کا کچھ علم نہیں۔ عارف کے لئے عالم ہونا ضروری ہے لیکن ہر عالم عارف نہیں ہوسکتا۔ یہی تصوف عین اسلام بلکہ حقیقت اسلام ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی زبان مبارک کا ایک ایک لفظ گنجینہ حکمت و معرفت ہے اور تصوف کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے تصوف کے نام پر دوکانداری چلانے اور سادہ لوح لوگوں کو مرید بنا کر لوٹنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے انہیں تصوف کے منکرین میں شامل کر دیا، حالانکہ آپ تصوف کے حقیقی علمبردار ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔