Fatwa Online

اگر کوئی شخص طلاق دے کر مکر جائے تو طلاق کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:3971

السلام علیکم مفتی صاحب! میرے دوست نے دوسری شادی کی تو پہلی بیوی ناراض ہوکر میکے چلی گئی اور واپسی کے لیے شرط رکھی کہ جب تک پہلی بیوی کو طلاق نہیں‌ دوگے، واپس نہیں‌ آؤں گی۔ میرے دوست نے اشٹام پیپر پر کچھ لکھا اور مجلس میں بیٹھے لوگوں کے سامنے کہا کہ میں نے دوسری والی کو طلاق دے دی ہے۔ کچھ دن بعد وہ اُسے گھر لے آیا اور کہا کہ میں نے تو جھوٹ بولا تھا میں نے طلاق نہیں‌ دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں‌ کا اس طرح‌ رہنا جائز ہے؟ کیا ان کی طلاق واقع ہوئی ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد سہیل انجم

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 23 جولائی 2016ء

موضوع:طلاق  |  طلاق رجعی  |  طلاق مغلظہ(ثلاثہ)

جواب:

مسئلہ مسؤولہ کی دو ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں:

  1. اگر شوہر نے مطلق بولا کہ ’میں نے دوسری بیوی کو طلاق دے دی ہے‘ اور اس نے اشٹام پیپر پر کچھ نہیں لکھا، تو اس کے ایسا کہنے سے طلاق رجعی واقع ہو گئی ہے۔ اس صورت میں دورانِ عدت رجوع کر سکتا ہے، اگر عدت کی مدت (تین حیض) پوری ہوگئی ہے تو تجدیدِ نکاح کے بعد دوبارہ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔
  2. اگر شوہر نے اشٹام پیپر پر تین طلاقیں لکھی ہیں یا زبانی یہ جملہ بولا ہے کہ ’میں نے دوسری بیوی کو تین طلاق دے دی ہیں‘ تو پھر تین ہی واقع ہوئی ہیں۔ اس صورت میں طلاق مغلظہ واقع ہوئی ہے جس کے بعد رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سائل صورتحال کے مطابق فیصلہ کر لے کہ دونوں میں سے کونسی صورت بنتی ہے۔ جو بھی صورت بنے اس کا حکم بیان کر دیا گیا ہے۔

سوال کے دوسرے حصے میں آپ نے طلاق دینے والے کے اِس قول کے بارے میں پوچھا کہ ’میں نے تو جھوٹ بولا تھا‘ طلاق نہیں دی تھی‘۔ شریعتِ مطاہرہ کا اصول ہے کہ طلاق خواہ سنجیدگی میں دی جائے یا مذاق میں، جھوٹی ہو یا سچی، فرضی ہو یا حقیقی، طلاق واقع ہو جائے گی۔ حدیثِ مبارکہ میں آقا علیہ الصلاۃ و السلام کا ارشاد ہے:

عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ قَالَ ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ النِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کے ساتھ کی جائیں یا مذاق میں کی جائیں (دونوں صورتوں میں) صحیح مراد ہیں: نکاح، طلاق اور رجوع‘‘

  1. ابي داود، السنن، 2: 259، رقم: 2194، دار الفکر
  2. ترمذي، السنن، 3: 490، رقم: 1184، دار احياء التراث العربي بيروت

اس لیے مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ میں نے جھوٹ بولا تھا‘ طلاق نہیں دی تھی، محض لغو ہے۔ اگر اس نے طلاق دی تھی تو طلاق واقع ہوگئی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 16 April, 2024 10:27:29 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3971/