Fatwa Online

کیا والدین کے ترکہ میں‌ سے ان کی خدمت کرنے والے بیٹے کو اضافی حصہ ملے گا؟

سوال نمبر:3536

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میرے والد مرحوم جناب حیات اللہ خان ولد مرحوم برکت اللہ خان ساکن گاؤں مجہنا، پوسٹ پپرا رام چندر، تحصیل اترولہ، ضلع گونڈہ (حالیاً بلرام پور) انڈیا، کی وفات مورخہ 4 جون 2000 کو ہوئی۔ ان کے بعد میری والدہ مرحومہ حسن بانو کی وفات مورخہ 14 جنوری 2014 کو ہوئی۔ والد مرحوم نے دو نکاح کیے، پہلی زوجہ سے صرف بہن صالحہ ہے، انہیں والد مرحوم نے طلاق دے دی تھی۔ دوسری ہماری ماں، جن سے آٹھ (8) لڑکے اور تین (3) لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ ہم اس وقت چھ (6) بھائی اور دو (2) بہنیں ایک ماں باپ سے حیات ہیں، اور ایک بہن والد مرحوم کی دوسری زوجہ سے زندہ ہے۔ دو بھائی اور ایک بہن والد مرحوم کے انتقال سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے۔ وہ بھی ایک (ہمارے) ماں باپ سے تھے۔ ابھی تک تقسیم جائیداد نہیں ہوئی ہے۔ سب اولادوں کی تفصیل یوں ہے۔

  1. صالحہ (بہن ،دوسری ماں سے)
  2. عرفان اللہ
  3. مرحومہ شمع بانو ، وفات 1993 میں پائی، ایک بیٹا موجود ہے۔
  4. مرحوم رضوان اللہ، وفات 1995میں پائی، 2 بیٹیاں موجود ہیں۔
  5. شہر بانو
  6. سفیان
  7. سلمان
  8. محمد عثمان
  9. شیر ین بانو
  10. مرحوم ریحان، وفات 1980 ایک سال سے کم عمر میں پائی۔
  11. عمران
  12. امان

براہ کرم مندرجہ ذیل مسئلوں کا حل شرعی رو سے عنایت فرمائیں، آپ کی نوازش ہو گی اور ہم بھائی، بہنوں کی الجھنیں ختم اور دنیا اور آخرت سنور جائے گی۔

ہمارے درمیان شرعی وراثت کیسے ہو؟ کب سے ہو؟ ہمیں کتنے کتنے حصے والد مرحوم اور والدہ مرحومہ کی طرف سے ملیں گے؟

  1. ہمارے والدین مرحومین نے کچھ نقدی، زیورات، بنک ڈپازٹ اور قرض وغیرہ مختلف بھائی اور بہنوں کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔ بھائیوں نے قرض تو بتا دیا مگر ان چیزوں کو کسی نے ظاہر نہیں کیا ہے، انہیں کیا کرنا چاہئے؟
  2. والدہ مرحومہ کے علاج میں کافی روپے لگ گئے۔ کچھ روپے بھائیوں نے، کچھ والد کے مکان کے کرائے سے اور کچھ قرض سے انکا علاج ہوا۔ کچھ بھائی اور انکی بیویوں نے والدہ مرحومہ کی بہت خدمت کی۔ علاج کا خرچ کیسے تقسیم ہوگا؟ جن لوگوں نے والدہ مرحومہ کی خدمت کی کیا انکا کچھ مالی معاوضہ ہونا چاہیئے؟
  3. مرحومہ شمع بانو کی کچھ نقدی اور زیورات والدہ مرحومہ کے پاس تھا، اسے کسی نے قبول نہیں کیا ہے کہ کس کے پاس ہے۔ اسکا کیا کریں؟ کیا اس مرحومہ بہن کا کوئی حصہ ہے؟ انکا لڑکا اپنے والد کے کفالت میں ہے۔
  4. مرحوم رضوان کی دو بیٹیاں ہیں اور ایک بیوہ ہے۔ بیوہ نے چند سالوں کے بعد ہمارے ہی بھائی سفیان سے نکاح کر لیا۔ بچیاں لگ بھگ 2002 سے سفیان کی کفالت میں ہیں۔ وراثت میں مرحوم بھائی کی بچیوں اور بیوہ کا کیا حصہ ہے؟ بچیوں کی کفالت کے اخراجات کون برداشت کرے؟
  5. عرفان اللہ والدین کی زندگی میں ہی الگ گزر بسر کرنے لگے، والدین کی جائیداد میں سے کچھ نہیں لیا۔ کیا انکا وراثت میں کچھ حصہ ہے؟ والد مرحوم نے وفات سے کچھ روز پہلے اپنا جانشین عرفان اللہ کو بنایا، چونکہ اس وقت والدہ مرحومہ حیات تھیں، جھگڑے اور والدہ کے احترام کی وجہ سے انہوں نے گھر کی باگ دوڑ نہیں سنبھالی۔ اب جبکہ والدہ مرحومہ نہ رہیں، انکا کیا رول ہونا چاہئے۔ (بھائیوں میں عمر میں سب سے بڑے ہیں۔)
  6. چونکہ ابھی تک بٹوا رہ نہیں ہوا ہے جو کہ والد مرحوم کے وفات کے فوراً بعد ہو جانا چاہئے تھا، جو دولت والد مرحوم کے وفات کے بعد سے لے کر اب تک ہے، کس طرح سے ساری چیزوں کا حساب ہو؟ جو بھائیوں نے کمایا اور والدین مرحومین کی مشترکہ دولت کو کس طرح سے الگ کیا جائے؟
  7. ممبئی میں والد مرحوم کا ایک مکان ہے، دو منزلوں کا۔ والد مرحوم کی زندگی میں وہ کچا تھا اور پگڑی پر تھا۔ مالک مکان سے کچھ اسی زمین کا حصہ اور نقدی دے کر مالکانہ حقوق حاصل کر لیا گیا۔ایک بھائی جو اسی جگہ پر خاندانی تجارت کرتا تھا، ا سی نے ساری کوشش کی۔ نچلے دو منزلے کرائیے پر دے دئے گئے اور بالائی منزل پر کچھ بھائی وقتاً فوقتاً رہنے لگے۔ والدہ مرحومہ بھی اپنے علاج کے دوران پانچ سالوں تک یہیں پر قیام کیا۔ چونکہ یہ مجموعی ملکیت ہے کس طرح سے اس کے کرائے کا جو دو منزلوں سے حاصل ہوتا ہے، تقسیم کریں؟ بالائی منزل کا حساب کیسے ہو؟
  8. والدہ مرحومہ جب علاج کے لئے ممبئی آ گئیں تو دیہات کی جائیداد اور مقدمات کی دیکھ بھال کے لئے ایک بھائی کو چند بھائیوں نے راضی کیا۔ ان سے وعدہ کیا کہ ہر مہینے ایک خاص رقم انہیں دیہات دیں گے۔ جو بھائی گاؤں میں ہے اسکی آمدنی جو رقم اسے ارسال کی جاتی ہے اس سے، اسکے علاوہ فصلیں، سوکھے پیڑ وں کی کٹائی سے، بانسوں کی کٹائی سے، جگہ کے کرائے وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ بھائی ممبئی میں کاروبار کرتا تھا، اسے چھوڑ کر دیہات گیا۔ کس طرح سے دیہات کا حساب ہو؟ براہ کرم روشنی ڈالیں-

آپ کا احسان مند رہوں گا۔

سوال پوچھنے والے کا نام: عرفان اللہ خان

  • مقام: ریاض/سعودی عربیہ
  • تاریخ اشاعت: 14 اپریل 2015ء

موضوع:تقسیمِ وراثت

جواب:

اسلام کے قانونِ تقسیمِ وراثت کی رو سے کفن، دفن اور قرض (اگر تھا تو اس) کی ادائیگی کے بعد مورث یا فوت ہونے والے کی وصیت (اگر ہو تو) پوری کی جاتی ہے، پھر جو ورثاء زندہ ہوں ان میں وراثت یا ترکہ تقسیم کیا جاتا ہے۔

آپ کے بقول آپ کے والد صاحب کی وفات کے وقت ان کی ایک بیوی، چھ (6) بیٹے اور تین (3) بیٹیاں زندہ تھیں۔ ان کے ترکہ کی تقسیم درج ذیل ہوگی:

کل ترکہ میں سے آٹھواں (1/8) حصہ ان کی بیوی کو ملے گا۔ باقی مال کو پندرہ (15) برابر برابر حصوں میں تقسیم کر کے ہر بیٹے کو دو (2) اور ہر بیٹی کو ایک (1) حصہ دیا جائے گا۔ اس ترکہ کی تقسیم میں پہلی اور دوسری بیوی کی اولاد میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جائے گا، کیونکہ مُورِث (جس کی وراثت تقسیم کی جارہی ہے) تمام اولاد کا والد ہے۔

آپ کی والدہ کی وفات کے بعد ان کے ترکہ کی تقسیم درج ذیل ہوگی:

آپ کے والد چونکہ پہلے وفات پاچکے ہیں اس لیے والدہ کے چھوڑے ہوئے کل ترکہ کو چودہ (14) حصوں میں تقسیم کر کے ان کے ہر بیٹے کو دو (2) اور ہر بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا۔ آپ کی باپ شریک بہن، جو آپ کے والد کی دوسری بیوی سے ہے، اسے اس ترکہ سے حصہ نہیں ملے گا۔

آپ کے باقی سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. اگر آپ کے والدین نے اپنی زندگی میں کوئی رقم، زیور یا جائیداد کسی اولاد کو ہبہ کردی تھی تو وہ تقسیم میں شامل نہیں ہوگی۔ لیکن اگر بطور امانت کسی کے پاس رکھا تھی تو اس کو ترکہ کی تقسیم کرتے ہوئے شامل کیا جائے گا۔
  2. جن بیٹوں یا بیٹوں نے والدین کے اعلاج پر کچھ خرچ کیا ہے، ان کو والدین کے ترکہ میں سے اعلاج کی رقم دینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جنہوں نے والدین کی خدمت کی ہے انہیں اس کا معاوضہ دیا جائے گا۔ والدین کی خدمت ان کا فرض تھا جو انہوں نے ادا کیا، اس پر انہیں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھنی چاہیے۔
  3. شمع بانو کی جو بھی امانت تھی وہ اس کے وارثین یعنی اس کے خاوند اور اولاد کا حق ہے۔ انہیں ملنی چاہیے۔
  4. رضوان اللہ کی بیوہ اور اس کی اولاد آپ کے والدین کے ترکہ میں سے حصہ کے شرعاً وارث نہیں، تاہم اگر ورثا متفق ہو کر ان کو کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
  5. جو اولاد والد کی وفات سے پہلے فوت ہو جائے اسے والد کے ترکہ سے حصہ نہیں ملے گا، اور جو والدہ کی وفات سے پہلے فوت ہوجائیں انہیں والدہ کے ترکہ سے حصہ نہیں ملے گا۔
  6. والدین یا مورث کی وفات کے ساتھ ہی تقسیم وراثت ہونی چاہیے تھی۔ تقسیم نہ ہونے کے ذمہ دار وارثین ہیں۔ اب جیسے ممکن ہو اندازہ لگا کر تقسیم کر لیں۔
  7. جو مکان یا جائیداد کرائے پر ہے اس کا کرایہ ورثاء کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ جو لین دین کیا اس کا معاملہ اسی سے طے کریں جس نے اسے آزاد کروایا۔
  8. جس بھائی کو ممبئی سے دیہات بھیجا گیا اور اسے اضافی رقم اور فصلیں دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، تو حسبِ وعدہ اسے وہ اشیاء کی جائیں گی۔
  9. واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

    مفتی:محمد شبیر قادری

    Print Date : 20 April, 2024 03:56:35 AM

    Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3536/