Fatwa Online

تعلیمی مقاصد کے لیے لڑکے اور لڑکی کا اکٹھا ہونا کیسا ہے؟

سوال نمبر:3457

السلام علیکم! میں میڈیکل کا طالبِ علم ہوں۔ بسا اوقات مجبوراً مخلوط طور پر پڑھنا پڑتا ہے، کیا اس کی اجازت ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد علی

  • مقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 11 جنوری 2015ء

موضوع:معاملات  |  جدید فقہی مسائل

جواب:

مغرب میں مخلوط تعلیم کا بنیادی تصور یہ ہے کہ عورت اور مرد میں ہر طرح کی صلاحیتیں بالکل ایک جیسی پائی جاتی ہیں، معاشرے کا ہر وہ کام جو مرد کر سکتا ہے وہ عورت بھی کر سکتی ہے بلکہ اسے کرنا چاہیے۔ عورت کسی بھی حیثیت میں مرد سےکم نہیں ہے، اور اسے کسی میدان میں بھی مرد سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ مساوات کے اس نام نہاد تصور نے ہی اصل میں مخلوط نظامِ تعلیم کو جنم دیا ہے۔ مخلوط تعلیم طالبات میں جس شخصیت صلاحیت اور ذہنیت کی تشکیل کرتی ہے وہ مخصوص فرائض ادا کرنے کی تربیت نہیں ہوتی بلکہ ہر میدان میں مردوں سے مسابقت برابری اور مردوں کے دائرہ کار میں اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھانے کی ذہنیت ہے۔ اس تعلیم کے نتیجے میں مجموعی طور پر ایک طالبہ مرد بن کر کچھ کرنے میں تو ناکام رہتی ہی ہے، ساتھ ہی اپنے مدارِ حیات سے بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ نتیجتاً خاندانی نظام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔

نصاب اور ماحول کو مخلوط بنانے کی کوشش نے نہ صرف معاشرتی نظام کو کھوکھلا کر دیا ہے بلکہ اخلاقی گراوٹ میں اضافہ، اساتذہ کے عزت واحترام میں کمی، مذہبی و ملی اقدار کی تضحیک اور ثقافتی اقدار کو مٹانے کی رفتار بھی تیز کردی ہے۔ اعلٰی تعلیمی اداروں پر جو دولت خرچ ہو رہی ہے اس کا نصف طالبات پر خرچ ہوتا ہے لیکن میدانِ کار کے بےمیل جوڑ ہونے کی وجہ سے ایسی خواتین کی بہت بڑی تعداد عملی میدان میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے سے قاصر رہتی ہے۔ نتیجتاً وہ نظامِ تعلیم جو بنیادی طور پر طلبہ کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر چلایا جارہا ہے وہ طالبات کے لئے ہرگز سود مند ثابت نہیں ہوتا۔

اس لیے ضروری ہے کہ طالبات کے لیے پرائمری سے لیکر یونیورسٹی کی سطح تک جداگانہ نظامِ تعلیم ہونا چاہیے، جہاں صرف خواتین اساتذہ تدریس کے فرئض سرانجام دیں۔ اس سے وہ مردوں کے تسلط میں دبے رہنے کی بجائے نہ صرف آزادانہ تعلیم حاصل کر سکیں گی بلکہ معاشرے میں مؤثر کردار بھی ادا کر سکیں گی۔ اگر طالبات کے لیے الگ سکولز کالجز اور یونیورسٹیز بنائی جائیں تو وہ طلبہ کے مقابلے میں کئی گنا بہتر نتائج دے سکتی ہیں۔

ہمارے ہاں چونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے طلبہ اور طالبات کے ادارے الگ الگ نہیں ہیں، تو ایسے میں مجبوراً لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ہی ادارے میں پڑھنا پڑتا ہے۔ جن اداروں میں مخلوط نظامِ تعلیم ہے ان میں طلبہ اور طالبات کو صرف کلاس یا لیکچر سننے کی حد تک ہی اکٹھے بیٹھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ کلاس کے اختتام کے ساتھ ہی لڑکے لڑکوں کے ساتھ اور لڑکیاں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں۔ اگر بالفرض کوئی چیز ایسی ہے جو آپس میں ڈسکس کرنا ضروری ہے تو یہ ڈسکشن بھی کلاس میں ہی ہونی چاہیے۔ اگر لڑکا اور لڑکی کلاس کے علاوہ اکیلے میں ڈسکشن کریں گے تو اس سے خرابیوں کا خدشہ ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 18 April, 2024 03:35:59 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3457/