جواب:
ذکر آہستہ کیا جائے یا درمیانے درجے کی بلند آواز سے، یہ جائز بلکہ افضل ہے۔ اسلام کا ہر حکم معتدل ہوتا ہے۔ کھانا پینا جائز، بلکہ ضروری ہے لیکن اعتدال کے ساتھ۔ حد سے زیادہ جائز نہیں۔ نماز، روزہ، انفاق سی سبیل اﷲ، حج جہاد، خوشی و غمی کا اظہار، تمام احکام میں اعتدال و توسط کی راہ اختیار کرنے کا حکم ہے۔ افراط و تفریط نہ عبادات میں جائز ہے اور نہ معاملات میں۔ اگر نماز باجماعت ہو رہی ہو یا پاس مریض لیٹا ہو یا کوئی آرام کر رہا ہو یا کوئی مصروف مطالعہ ہو تو اس کے پاس چیخ چیخ کر ذکر کرنے کو کون جائز قرار دے گا؟ اگر نماز باجماعت ہوچکی ہے اور مذکورہ عوارض بھی موجود نہیں اور لوگ اجتماعی طور پر درمیانی آواز سے ذکر بالجہر کریں تو یہ عین منشاء قرآن و حدیث ہے۔ اسی پر صحابہ کرام کا عمل رہا اور اسی کا ان کو حکم تھا۔ اس کی صراحت فقہائے کرام نے فرمائی اور یہی آج تک اہل سنت کا معمول رہا ہے۔
فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا.
’’اللہ کا خوب ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے باپ دادا کا (بڑے شوق سے) ذکر کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ شدت شوق سے (اللہ کا) ذکر کیا کرو‘‘۔
البقره، 2 : 200
دراصل کفار مکہ حج سے فراغت کے بعد مجالس میں اپنی قومی خوبیاں اور نسبی عظمتیں بیان کرتے تھے اس کو اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا اور اس کی جگہ اللہ کا ذکر کرنے کا حکم دیا۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کا بلند آواز سے تذکرہ کرتے تھے، اس کو چھوڑ کر ان اجتماعات میں ذکر الٰہی کرنے کا حکم دیا گیا۔ پس یہ ذکر بالجہر کا حکم ہے۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا.
’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کئے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے‘‘۔
البقره، 2 : 114
اس آیت مبارکہ میں اس شخص کو سب سے بڑا ظالم گردانا گیا ہے جو مسجد میں اللہ کا ذکر کرنے والوں کو ذکر سے روکتا ہے اور مساجد کو ویران کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں بھی پوشیدہ طور پر ذکر بالجہر ہی مراد ہے کیونکہ اگر لوگ دل میں ذکر کریں تو ان کو کون روک سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ بلند آواز سے ہی ذکر کیا جاتا ہے جسے سن کر ظالم لوگ منع کرتے ہیں اور مساجد کو ویران کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے درد ناک عذاب کی وعیدسنائی ہے۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ.
’’ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) لرز جاتے ہیں‘‘۔
الانفال، 8 : 2
اہل علم و عقل جانتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے بھی ذکر بالجہر کا ثبوت ملتا ہے کہ جب کسی کے سامنے ذکر کیا جائے اور اس ذکر کا اثر اسی صورت قبول کر سکتا ہے جب ذکر بالجہر ہو، کیونکہ خفی ذکر تو وہ سن نہیں سکتا اور جو ذکر سنا جاتا ہے وہ ذکر بالجہر ہی ہے۔
عن ابی سعيد الخدری رضی الله عنه رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : أکثروا ذکر اﷲ تعالی حتی يقولوا مجنون.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں‘‘۔
ابن حبان، الصحیح، 3 : 99، رقم : 817
اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے پر لوگ تبھی دیوانہ کہیں گے جب لوگ سنیں گے اور سن اسی وقت سکتے ہیں جب ذکر بالجہر ہو گا۔
عن ابن عباس رضی الله عنه : قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أذکروا اﷲ ذکرا يقول المنافقون إنکم تراؤون.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا ذکر اس قدر کرو کہ منافق تمہیں ریا کار کہیں‘‘۔
طبرانی، المعجم الکبیر، 12 : 169، رقم : 12786
اس حدیث پاک میں بھی واضح طور پر ذکر بالجہر ہی کی بات کی گئی ہے کہ جس پر منافق ریا کار کہیں۔
عن جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنهما أن رجلا کان يرفع صوته بالذکر فقال رجل لو أن هذا إخفض من صوته فقال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فإنه آواه قال فمات فرأی رجل نارا فی قبره فاتاه فاذا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فيه وهو يقول هلموا الی صاحبکم فاذا هو الرجل الذی کان يرفع صوته بالذکر.
’’حضرت جابر بن عبدا للہ رٰ اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی بلند آواز سے ذکر کیا کرتا تھا، ایک آدمی نے کہا : اگر یہ آدمی اپنی آواز پست رکھتا (تو بہتر ہوتا) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ مست ہے راوی کہتا ہے کہ وہ شخص انتقال کر گیا پس ایک شخص اس کی قبر میں روشنی دیکھ کر اس کے قریب آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں (پہلے سے) موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے اس ساتھی کی طرف آؤ جو بلند آواز سے ذکر کیا کرتا تھا‘‘۔
الحاکم، المستدرک، 1 : 522، رقم : 1361
یعنی بلند آواز سے ذکر کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مروج تھا۔
نماز کے بعد ذکر کرنے کا حکم قرآن و حدیث اور اقوالِ فقہائے کرام سے ثابت ہے اس کی بڑی فضیلت ہے اور اس میں بڑی برکت ہے حیلے بہانوں سے اسے منع کرناقبیح بدعت اور گناہ ہے قرآنِ کریم میں ہے :
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo
’’پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ‘‘۔
الجمعۃ، 62 : 10
پھر ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًاo
’’اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو‘‘۔
الاحزاب، 33 : 41
مسجدوں میں اﷲ کے ذکر سے منع کرنے والے کو قرآن نے ظالم کہا ہے۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُوْلَـئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلاَّ خَآئِفِينَ لهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ.
’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے، انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے‘‘۔
البقرہ، 2 : 114
معلوم ہوا کہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کے ذکر سے منع کرے۔ منع اسی وقت کرے گا جب آواز سنے گا اور آواز اسی وقت سنے گا جب بلند آواز سے ذکر کیا جائے گا جو دل میں ذکر کرے اس کی آواز تو اللہ ہی سنتا ہے کسی دوسرے کو کیا معلوم کہ یہ اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جب دوسرے کو پتا ہی نہیں تو منع کیسے کرے گا؟ یہ قرآن کی آیت ہے اس پر بار بار غور کریں اور منع کرنے والے سے بھی سوال کریں۔
أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
’’جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔
الرعد، 13 : 28
إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ.
’’شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آو گے‘‘؟
المائدۃ، 5 : 91
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ.
’اور جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، دل تنگ ہو جاتے ہیں ان کے جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے‘‘۔
الزمر، 39 : 45
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى.
’’اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا اور ہم اسے قیامت کے دن (بھی) اندھا اٹھائیں گے‘‘۔
طہ، 20 : 124
عن ابن عباس رضی الله عنه قال کنت أعرف إنقضاء صلٰاة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم بالتکبير.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز سے فراغت اللہ اکبر کی آواز سن کر معلوم کرتا تھا‘‘۔
بخاری، الصحیح، 1 : 288، الرقم : 806
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ان رفع الصوت بالذکر حين ينصرف الناس من المکتوبة کان علی عهد نبی صلی الله عليه وآله وسلم وقال ابن عباس کنت أعلم إذا بذلک إذا سمعته.
’’بلند آواز سے ذکر کرنا، جب لوگ فرض نماز سے فارغ ہو جائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مروج تھا اور ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں اس کی آواز سن کر معلوم کر لیتا تھا کہ نماز ہو گئی ہے‘‘۔
مسلم، الصحیح، 1 : 410، الرقم : 583
ان الجهر أفضل لأنه اکثر عملاً ولتعدی فائدته، الی السامعين ويوقط قلب الذاکر فيجمع همه الی الفکر و يصرف سمعه و بطرد النوم ويزيد انشاط.
’’بلند آواز سے ذکر افضل ہے کہ اس میں محنت زیادہ ہے اور اس کا فائدہ تمام سننے والوں تک پہنچتا ہے اور یہ ذکر کرنے والے کے دل کو بیدار کرتا ہے اور اس کے خیال کو جمع کرتا ہے اور کانوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہے اور نیند بھگاتا ہے اور چستی بڑھاتا ہے‘‘۔
شامی، ردالمختار، 1 : 660
جب قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور کلام فقہاء سے نماز کے بعد ذکر بالجہر کا حکم ثابت ہو گیا تو تاویل اور بہانے بنانے سے باز رہنا چاہیے اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔