جواب:
آپ کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی الم ناک ہلاکت کے واقعے کے بعد انہیں شہید جمہوریت کا خطاب دیے جانے پر سوال موصول ہوا۔ اس بابت چند معروضات پیش خدمت ہیں:
بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ، وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَى الطَّرِيقِ فَأَخَّرَهُ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ.
ایک مرتبہ ایک شخص راستے پر چل رہا تھا، اس نے راستے میں کانٹوں والی شاخ پڑی دیکھی تو اسے راستے سے ہٹا دیا۔ اللہ تعالی نے اس کی یہ نیکی قبول فرما لی اور اسے بخش دیا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ: الْمَطْعُونُ، وَالْمَبْطُونُ، وَالْغَرِقُ، وَصَاحِبُ الْهَدْمِ، وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
شہداء پانچ قسموں کے ہوتے ہیں: طاعون زدہ، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، پانی میں ڈوب کر مرنے والا، دیوار گرنے سے دب کر ہلاک ہونے والا اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔
صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ سے مذکورہ بالا حدیث مبارکہ واضح کرتی ہے کہ شہادت ایک وسیع المعنی لفظ ہے۔ اِس سے اگلی حدیث مبارکہ اس کی مزید تشریح بیان کرتی ہے، جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيكُمْ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ. قَالَ: إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ. قَالُوا: فَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الطَّاعُونِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استفسار: تم شہید کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: جسے اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر تو میری امت کے شہداء بہت کم ہوں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! پھر وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے، اور جو شخص اللہ کی راہ میں مر جائے وہ شہید ہے، جو شخص طاعون میں مرے وہ شہید ہے اور جو شخص پیٹ کی بیماری میں مرے وہ شہید ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی احادیث مبارکہ ہیں جن میں شہادت کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں۔ مذکورہ بالا احادیث میں پانچ اشخاص پر شہید کا اطلاق کیا گیا ہے، جب کہ سنن ابی داود کی کتاب الجنائز میں حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں تین اور اشخاص کا اضافہ کیا گیا ہے۔
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ثَابِتٍ، فَوَجَدَهُ قَدْ غُلِبَ فَصَاحَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُجِبْهُ فَاسْتَرْجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: غُلِبْنَا عَلَيْكَ يَا أَبَا الرَّبِيعِ. فَصَاحَ النِّسْوَةُ وَبَكَيْنَ فَجَعَلَ ابْنُ عَتِيكٍ يُسَكِّتُهُنَّ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهُنَّ فَإِذَا وَجَبَ فَلَا تَبْكِيَنَّ بَاكِيَةٌ. قَالُوا: وَمَا الْوُجُوبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الْمَوْتُ. قَالَتْ ابْنَتُهُ: وَاللَّهِ! إِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ شَهِيدًا، فَإِنَّكَ كُنْتَ قَدْ قَضَيْتَ جِهَازَكَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَهُ عَلَى قَدْرِ نِيَّتِهِ، وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ؟ قَالُوا: الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، الْمَطْعُونُ شَهِيدٌ، وَالْغَرِقُ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ الْحَرِيقِ شَهِيدٌ، وَالَّذِي يَمُوتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِيدٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبد اللہ بن ثابت کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو انہیں بے ہوش پایا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں زور سے آواز دی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انا للہ و انا الیہ راجعون کہتے ہوئے فرمایا: اے ابو الربیع! ہم تمہارے میں مغلوب ہو گئے ہیں۔ چنانچہ (گھر کی) عورتیں چیخنے اور رونے لگیں اور حضرت ابن عتیک انہیں چپ کراتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہیں چھوڑ دو، جب واجب ہو جائے تو اس وقت کوئی رونے والی نہ آئے۔ لوگ عرض گزار ہوئے: واجب ہونا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: موت۔ ان کی صاحبزادی نے (اپنے والد عبد اللہ بن ثابت کو مخاطب کرتے ہوئے) کہا: خدا کی قسم! ہم تو یہ امید رکھتے تھے کہ آپ شہید ہوں گے کیونکہ آپ جہاد کی تیاری کر چکے تھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے ان کی نیت کے مطابق ان کو ثواب دیا ہے اور تم شہادت کس چیز کو شمار کرتے ہو؟ عرض کی: اللہ کی راہ میں قتل کیے جانے کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے علاوہ بھی سات قسم کی شہادت اور ہے: طاعون سے مرنے والا شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے، ذات الجنب سے مرنے والا شہید ہے، جل کر مر جانے والا شہید ہے، جل کر مر جانے والا شہید ہے، دب کر مر جانے والا شہید ہے اور بچے کی ولادت کے باعث مرنے والی عورت بھی شہید ہے۔
امام بخاری نے الصحیح کی کتاب المظالم والغضب میں ان آٹھ قسموں کے علاوہ ایک اور قسم بیان کی ہے۔
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ.
جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے۔
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُظْلَمُ بِمَظْلَمَةٍ فَيُقَاتِلَ فَيُقْتَلَ إِلَّا قُتِلَ شَهِيدًا.
جب کوئی مظلوم مسلمان (ظالموں کے خلاف) برسر پیکار ہوتے ہوئے قتل ہو جائے تو وہ شہید ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)
اللهم! بارك في الموت وفيما بعد الموت. (مجمع الزوائد)
اس طرح مذکورہ بالا حوالہ جات کے مطابق شہید کی کل انتیس قسمیں بنتی ہیں۔ جب کہ مزید احادیث بھی اس ضمن میں وارد ہوئی ہیں، جن کے مطابق شہید کی کل قسمیں تقریبا پنتالیس ہیں۔
لہٰذا ان تفصیلات کی روشنی میں اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کے لیے ناقابل فراموش خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے انہیں شہید جمہوریت کہ دیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
امید ہے آپ معاملہ کی تہ تک پہنچ کر نفس مسئلہ کو سمجھ گئی ہوں گی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔