اس زمرے میں وراثت کی شرعی تقسیم کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات شامل ہیں
بیویوں کو کل قابلِ تقسیم مال کا آٹھواں حصہ اور بیٹی کو نصف ملے گا
تینوں بہنیں کل قابلِ تقسیم ترکہ کے 66 فیصد سے برابر حصے پائیں گی بقیہ عصبات کو ملے گا
مورث کے کل قابلِ تقسیم ترکہ سے اس کی بیوہ کو چوتھا حصہ اور بہن کو آدھا حصہ ملے گا
والدین کے ترکہ سے بیٹی کو حصہ نہیں ملا تو اس کا حصہ ختم نہیں ہوا
اسلام میں بیٹی کا حقِ وراثت بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام نے وراثت میں بیٹی کا حصہ مقرر کیا ہے
کسی وارث کی کسمپرسی کے سبب اس کے حصے سے زائد دینا باعث اجر و ثواب ہے
اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی والدین کے ترکہ میں حقدار ٹھہرایا ہے
مکان شوہر کے نام تھا تو شوہر کے وصال کے بعد اُس کے ترکہ کے طور پر مکان میں سے آٹھواں حصہ بیوہ کو ملنا تھا
اگر سائلہ کی والدہ کا حصہ چچا کی جائیداد میں نہیں بنتا تھا تو سائلہ کے بھائی نے انہیں یہ حصہ دلوا کر غلط کیا
بیوی کو آٹھواں، بیٹیوں کو دو تہائی حصہ ملے گا اور بقیہ مالِ وراثت بہن بھائی پائیں گے
کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ مالک کی رضامندی کے بناء اس کی ملکیتی جائیداد کسی کو دے میں تقسیم کریں۔
کل مالِ وراثت کے چودہ (14) حصے بنا کر ہر بھائی کو دو حصے اور ہر بہن کو ایک حصہ دیا جائے گا
جس طرح باپ کی زمین میں بیٹے کا حق ہے اسی طرح بیٹی کا بھی باپ کی زمین میں حق ہے
شوہر کی وفات کے بعد اس کا نام لینے یا اس کی تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے
تقسیمِ وراثت کے شرعی اصولوں کے مطابق نانا کی وراثت میں نواسے کا حصہ مقرر نہیں ہے
بھتیجوں کی موجودگی میں بھانجے وارث قرار نہیں پاتے، اس لیے قابلِ تقسیم ترکہ صرف بھتیجوں میں برابر تقسیم ہوگا
ایسی وراثت کی تقسیم میں موجودہ مالیت کو ملحوظ رکھا جائے گا
کل قابلِ تقسیم ترکہ میں سے بیوہ کو آٹھواں حصہ ملے گا اور باقی ترکہ مرحوم کے بیوٹوں میں برابر تقسیم ہوگا
کُل قابلِ تقسیم ترکہ کے چار برابر حصے بنا کر ہر بیٹی کو ایک ایک اور بیٹے کو دو حصے ملیں گے
بیوہ کو چوتھا حصہ اور بقیہ مال دونوں بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگیا
مذکورہ چھ بیٹوں کے علاوہ کوئی اولاد نہیں ہے اور کوئی مزید وارث بھی نہیں ہے جائیداد انہی چھ بیٹوں میں تقسیم ہوگی
عام طور سرکاری یا نجی اداروں کی پالیسی ہوتی ہے کہ ملازمین کی پینشن ان کی وفات کے بعد ان کی بیوہ کو ملتی ہے
جائیداد کی تقسیم موجودہ قیمت کے مطابق ہوگی۔ وراثت کی تقسیم مورث کی وفات کے فوری بعد ضروری تھی۔ اگر ورثاء کو اُن کے حصے وقت پر مل جاتے تو ورثاء اُن سے فائدہ اٹھا سکتے تھے، جس سے وہ محروم رہے۔
مرحوم بھائی کے ترکہ سے صرف اس کے بھائیوں کو حصہ ملے گا اور بھابھی کے ترکہ سے اس کے بھائی بہنوں کو حصہ ملے گا۔
شریعت نے یتیم کے ولی کیلئے لازم کیا ہے کہ مالِ یتیم اُس وقت تک یتیم کے سپرد نہ کیا جائے جب تک ولی یتیم میں عقل و رشد اور سمجھداری و ہوشیاری نہ دیکھ لے
وقف کا ثبوت نہیں ہے، محض ارادہ ہے۔ وقف ثابت نہ ہونے کی وجہ سے پلاٹ کو مرحومہ کے ورثاء میں قانونِ وراثت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا
میت کی تجہیزوتکفین، قرض کی ادائیگی اور وصیت اگر ہو تو ایک تہائی سے پوری کرنے کے بعد جو باقی بچ جائے اُسے ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے